حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں (آپ سے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ (ہاں) فرمایا: ” کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع ہیں، جب ابر نہ ہوں، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: اللہ کےرسول نہیں! فرمایا: ” قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوابتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ نیک ہوں یا بد، اور اہل کتاب کے بقیہ (بعد کے دور) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا تو یہود کو بلایا جائے گا او ران سے کہا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے تو کہا جائے گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بوی بنائی نہ بیٹا، تو (اب) کیا چاہتے ہو؟کہیں گے: پروردگار! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گاکہ تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا اوروہ سب (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا او ران سے کہاجائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا، پھر ان سے کہا جائے گا! (اب) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پیاسے ہیں ہمارے پروردگار! ہمیں پانی پلا، آپ نے فرمایا: ان کواشارہ کیا جائے گا، تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی (اور) اس کا ایک حصہ (شدت اشتعال سے) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا، وہ (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، (تو) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی، وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اےہمارے رب! ہم دنیا میں سب لوگوں سے، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی، الگ ہو گئے، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے تو وہ فرمائے گا: کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں!تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھامگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہر بنادے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا، پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ تووہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے، پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا، اور (سب رسول) کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جسر (پل) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” بہت پھسلنی، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بن تہ لگا دیے جانے والے، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تووہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔“ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے۔) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ”بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تواس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے۔“ ”پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تو وہ آ گ سے ایک مٹھی بھرے گا او رایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے وہ سفید ہوتا ہے؟“ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ” تووہ لوگ (نہرسے) موتیوں کے مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی، اہل جنت (بعد ازاں) ان کو (اس طرح) پہچانیں گے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر وہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے، اس پر وہ کہیں گے: اےہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز (ہوسکتی) ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔“
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ فرمایا: ”کیا دوپہر کے وقت جب مطلع صاف ہو، ابر آلود نہ ہو، تمھیں سورج کے دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ کیا چودہویں رات جب آسمان صاف ہو بادل نہ ہوں، تمھیں چاند دیکھنے میں کوئی اذیت پہنچتی ہے؟“ صحابہ ؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: ”قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کے دیکھنے میں اتنی ہی کلفت ہو گی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا منادی کرے گا: ہر امت اپنے معبود کے ساتھ ہو جائے۔ جس قدر لوگ اللہ کے سوا بتوں، آستانوں کو پوجتے تھے، سب آگ میں جا گریں گے، اور صرف وہ لوگ بچ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے۔ نیک ہوں یا بد۔ اور کچھ اہلِ کتاب کے بقایا لوگ (جو اپنے اصل دین پر قائم رہے) پھر یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی عبادت کرتے تھے؟ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی بندگی کرتے تھے، تو ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی بیٹا ہے، تم کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے:ہمیں پیاس لگی ہے، اے ہمارے رب ہمیں پانی پلا! تو ان کو اشارہ کیا جائے گا،تم پانی پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔ وہ انھیں سراب کی طرح دکھائی دے گی، اور اس کا بعض حصہ دوسرے حصے کو تباہ کر رہا ہوگا، تو وہ سب جہنم میں گر جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلا کر پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی بندگی کرتے تھے؟ وہ کہیں گے ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ کی کوئی بیوی ہے نہ کوئی اولاد۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو پیاس لگی ہے، ہمیں پانی پلا!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اشارہ کیا جائے گا، تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، گویا کہ وہ سراب ہے۔ بعض بعض کو کھا رہا ہوگا (شدتِ اشتعال سے ایک دوسرے کو توڑ رہا ہوگا)، تو وہ سب آگ میں گر جائیں گے، یہاں تک کہ صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، ان کے پاس کائنات کا مالک اس سے قریب تر شکل میں آئے گا جس کو وہ جانتے ہوں گے۔ فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر گروہ اس کے ساتھ چلا گیا ہے، جس کی وہ عبادت کرتا تھا۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دنیا میں لوگوں سے اس وقت جدائی اختیار کی، جب کہ ہم ان کے بہت محتاج تھے، اورا ن کے ساتھ نہ رہے، تو وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ بعض لوگ ان میں سے (راہِ ثواب سے)پھرنے کے قریب ہوں گے (کیونکہ امتحان کی شدت کی وجہ سے دل میں شبہ پیدا ہونے لگےگا)، پھر فرمائے گا: کیا تمھارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ہے؟ جس سےتم اس کو پہچان سکو؟ تو وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کردی جائے گی، تو ہر وہ انسان جو اپنی مرضی سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا اس کو اللہ سجدہ کی اجازت (توفیق) دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو (مسلمانوں سے) بچنے کے لیے اور لوگوں کے دکھلاوے کے لیےسجدہ کرتا تھا، اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک تختہ کی طرف بنا دے گا۔جب وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر جائے گا۔ پھر وہ لوگ سجدے سے سر اٹھائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں ہو چکا ہو گا جس صورت میں انھوں نے پہلی مرتبہ دیکھاہو گا، اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے، پھر جہنم پر پل بچھا دیا جائے گا اور سفارش شروع ہو جائے گی۔ اس وقت (رسول) کہیں گے اے اللہ بچا! بچا!“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جسر (پل) کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”بہت پھسلنے کی جگہ ہوگی۔ اس پراچکنے والے آنکس ہوں گے، اور لوہے کی گوشت بھوننے والی مڑی ہوئی سلاخیں ہوں گی، اور اس میں گھوکرو جو نجد میں ہوتے ہیں، اس میں کانٹے ہوں گے جن کو سعدان کہتے ہیں، تو مومن اس سے پار ہوں گے پلک جھپکنے کی طرح، کوئی بجلی کی طرح، کوئی ہوا کی طرح، کوئی پرندوں کی طرح اور بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح، کچھ سالم پار ہو جائیں گے اور بعض زخمی ہو کر چھٹکارا پائیں گے، اور کچھ دھکا دے کر جہنم کی آگ میں گرا دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پا لیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اپنا حق پورا پورا وصول کرنے میں اس قدر جھگڑا نہیں کرتا، جس قدر مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں قیامت کے دن جھگڑا کریں گے، جو آگ میں چلے گئے ہوں گے۔ مومن کہیں گے: اے اللہ! اے ہمارے رب! یہ لوگ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: جن کو تم پہچانتے ہو ان کو نکال لو۔ ان کی شکلیں (صورتیں) آگ پر حرام کر دی جائیں گی۔ تو وہ بہت سے ان لوگوں کو نکال کر لائیں گے جن کے آگ آدھی پنڈلیوں تک پہنچ چکی ہو گی۔ پھر مومن کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے نکالنے کے لیے تو نے فرمایا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو اللہ عز وجل فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں دینار بھر خیر (نیکی) پاؤ اس کو نکال لاؤ۔ تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نے کسی ایسے فرد کواس میں نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی ایسے آدمی کو نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ذرہ برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے، پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نےاس میں کسی صاحبِ خیر کو نہیں چھوڑا۔“ اور ابو سعید خدریؓ فرمایا کرتے تھے: اگرتم میری اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتے، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو ”بے شک اللہ! ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا اور نیکی ہوگی تو اس کو بڑھائے گا، اور اپنی طرف سے اجرِ عظیم دے گا۔“ (النساء: 40) ”پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، انبیاءؑ نے سفارش کرلی اور مومن سفارش کر چکے اور ارحم الراحمین کے سوا کوئی نہیں رہا، تو وہ آگ سے ایک مٹھی بھرے گا، تو وہ ایسے لوگوں کو اس سے نکالے گا جنھوں کبھی نیکی نہیں کی ہوگی اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، تو وہ انھیں جنت کے دروازوں پر ایک نہر میں ڈال دے گا۔ جس کو زندگی کی نہر کہا جاتا ہے، تو وہ اس طرح پھلے پھولیں گے، جس طرح قدرتی بیج سیلاب کے خس وخاشاک میں نشوون پاتا ہے۔ کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو؟ کبھی وہ پتھر کے پاس ہوتا ہے، اور کبھی درخت کے پاس جو سورج کے رخ پر ہوتا ہے۔ وہ زرد اور سبز ہوتا ہے، اور جو سایہ میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے۔“ تو صحابہ ؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! گویا کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو وہ لوگ (نہر سے) موتی کی طرح نکلیں گے، ان کی گردنوں میں نشانی ہو گی۔ اہلِ جنت ان کو پہچانتے ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انھوں نے کیا ہو، اور بغیر کسی خیر کے جو انھوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر اللہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور تم نے جو کچھ دیکھا وہ تمھارا ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمھارے لیے میرے پاس اس سے بھی افضل (برتر)چیز ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! اس سے افضل چیز کون سی ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری خوشنودی و رضا اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔“