وحدثني عيسى بن حماد المصري ، اخبرنا الليث ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، انه سمعه يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا زنت امة احدكم فتبين زناها، فليجلدها الحد ولا يثرب عليها، ثم إن زنت، فليجلدها الحد ولا يثرب عليها، ثم إن زنت الثالثة فتبين زناها، فليبعها ولو بحبل من شعر "،وحَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَتَبَيَّنَ زِنَاهَا، فَلْيَجْلِدْهَا الْحَدَّ وَلَا يُثَرِّبْ عَلَيْهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ، فَلْيَجْلِدْهَا الْحَدَّ وَلَا يُثَرِّبْ عَلَيْهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتِ الثَّالِثَةَ فَتَبَيَّنَ زِنَاهَا، فَلْيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ "،
لیث نے سعید بن ابی سعید سے، انہوں نے اپنے والد سے خبر دی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور اس کا زنا (کسی دلیل سے) واضح (ثابت) ہو جائے تو وہ (مالک) اس پر حد لگائے اور اسے ملامت نہ کرتا رہے، پھر اگر وہ زنا کرے تو اس کو حد لگائے اور اسے ملامت نہ کرتا رہے، پھر اگر وہ تیسری بار زنا کرے اور اس کا زنا واضھ ہو جائے تو اسے فروخت کر دے، چاہے بالوں کی ایک رسی ہی کے عوض کیوں نہ بِکے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”جب تم میں کسی کی لونڈی زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہو جائے (دلیل مل جائے) تو وہ اس پر حد لگائے اور اس پر سرزنش و توبیخ نہ کرے، پھر دوبارہ اگر زنا کرے تو اس کو حد لگائے اور اس پر سرزنش یا ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، پھر اگر تیسری بار زنا کرے اور زنا کی شہادت مل جائے تو اس کو بیچ ڈالے، اگرچہ بالوں کی رسی ہی بدلہ میں ملے۔“
إذا زنت أمة أحدكم فتبين زناها فليجلدها الحد ولا يثرب عليها ثم إن زنت فليجلدها الحد ولا يثرب عليها ثم إن زنت الثالثة فتبين زناها فليبعها ولو بحبل من شعر
إذا زنت أمة أحدكم فتبين زناها فليجلدها الحد ولا يثرب عليها ثم إن زنت فليجلدها الحد ولا يثرب عليها ثم إن زنت الثالثة فتبين زناها فليبعها ولو بحبل من شعر
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4445
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) تَبَيَّنَ زنَاهَا: دلیل سے اس کا زنا سامنے آ جائے، بقول احناف، اس کے خلاف شہادت مل جائے، کیونکہ ان کے نزدیک حد صرف امام جاری کر سکتا ہے، لیکن جن کے نزدیک (ائمہ ثلاثہ) آقا، اپنے غلام، لونڈی پر حد نافذ کر سکتا ہے، ان کے نزدیک آقا کو یہ حرکت دیکھ کر، حد نافذ کرنا جائز ہے۔ (2) فَلْيَجْلِدْهَا الحد: آقا اس پر حد نافذ کرے، ائمہ حجاز (مالک، شافعی، احمد) نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مالک اپنے مملوک پر حد لگا سکتا ہے، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور اور بعض صحابہ مثلا ابن عمر، ابن مسعود، انس بن مالک رضی اللہ عنہم کے نزدیک مالک، اپنے مملوک پر تمام حدود جاری کر سکتا ہے، لیکن سفیان ثوری اور اوزاعی کے نزدیک صرف حد زنا لگا سکتا ہے اور امام مالک اور لیث کے نزدیک زنا، قذف اور شراب نوشی پر حد لگا سکتا ہے اور احناف کے نزدیک کسی قسم کی حد جاری کرنا، امام کا کام ہے، آقا کوئی حد نہیں لگا سکتا۔ (3) وَلَا يُثَرِّبْ عَلَيْهَا: جب حد لگا دی ہے تو اس کے بعد اس کو سرزنش و توبیخ یا ملامت کرنا درست نہیں ہے یا محض لعن طعن اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا کافی نہیں ہے، اس کو سزا دینی چاہیے اور لونڈی کی حد، پچاس کوڑے ہیں، کیونکہ غلامی کی خست کی بناء پر لونڈیوں کے لیے یہ حرکت عربوں میں معیوب خیال نہیں کی جاتی تھی اور ان کو آزادوں کی طرح پورا تحفظ اور دفاع حاصل نہیں تھا، اس لیے ان کی عزت و ناموس عدم پردہ کی وجہ سے اور عام خلا ملا کی بناء پر پوری طرح محفوظ نہیں ہوتی، اس لیے ان کی سزا میں تخفیف ملحوظ رکھی گئی ہے۔ (4) زني فليبعها: جمہور کے نزدیک بیچنا فرض نہیں ہے، استحبابی حکم ہے، کیونکہ ایک آقا کے ہاں اس حرکت کا بار بار ارتکاب اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ہاں اس کی جنسی ضرورت پوری نہیں ہوتی اور وہ اس کی صحیح نگرانی نہیں کر سکتا، دوسرے انسان کو اس عیب سے آگاہ کر کے بیچے گا تاکہ وہ سوچ لے کہ میں اس کی خواہش پوری کر سکتا ہوں یا نہیں یا میں اس پر قابو پا سکتا ہوں یا نہیں، اس طرح پورے غوروفکر اور مکمل بصیرت کے ساتھ وہ یہ سودا کرے گا، مزید براں لونڈی کو بھی پتہ ہو گا، اگر میں نے اب پھر یہ حرکت کی تو مجھے یہاں سے بھی نکال دیا جائے گا اور بار بار آقا تبدیل کرنا کوئی غلام پسند نہیں کرتا، امام ابو ثور اور داود ظاہری کے نزدیک، آگے فروخت کرنا فرض ہے۔ (5) وَلَوْ بِحَبْل مِنْ شَعْرٍ: اگرچہ بالوں کی رسی کے عوض بیچنا پڑے، مقصد یہ ہے کہ وہ ایسی لونڈی کو گھر سے نکال دے، کہیں اس کا اثر دوسروں پر نہ پڑے، اگرچہ اسے قیمت میں نقصان یا خسارہ ہی برداشت کرنا پڑے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4445
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4470
´غیر شادی شدہ لونڈی زنا کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اس پر حد قائم کرنا چاہیئے، یہ نہیں کہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دے، ایسا وہ تین بار کرے، پھر اگر وہ چوتھی بار بھی زنا کرے تو چاہیئے کہ ایک رسی کے عوض یا بال کی رسی کے عوض اسے بیچ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4470]
فوائد ومسائل: 1) لونڈی کا مالک ہی اس بات کا مکاف ہے کہ اسے حد لگائے اور صرف زجرو توبیخ یا عارلانے پر کفایت نہ کرے کہ حد شرعی کو موقوٖف کردے۔
2) عارنہ دلائے کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت زیادہ عار نہ دلائے۔ کیونکہ بعض اوقات بعض طبیعتیں اس انداز سے اور زیادہ ڈھیٹ ہوجاتی ہیں اور ان کے منفی جذبات ابھر آتے ہیں اور پھر عمدًا گناہ کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسائل ہے۔
3) بدفطرت غلام نوکر کو اپنے سے دور کردینا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4470
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1440
´لونڈیوں پر حد جاری کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اللہ کی کتاب کے (حکم کے) مطابق تین بار اسے کوڑے لگاؤ ۱؎ اگر وہ پھر بھی (یعنی چوتھی بار) زنا کرے تو اسے فروخت کر دو، چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے۔“[سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1440]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی زنا کی حرکت اس سے اگر تین بار سرزد ہوئی ہے تو ہر مرتبہ اسے کوڑے کی سزا ملے گی، اور چوتھی مرتبہ اسے شہر بدر کردیا جائے گا۔
2؎: کیوں کہ باب کی حدیث کا مفہوم یہی ہے، مالک کے پاس اپنی لونڈی یاغلام کی بدکاری سے متعلق اگر معتبر شہادت موجود ہوتو مالک بذات خود حد قائم کرسکتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1440
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2234
2234. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ”جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کر اور وہ ثابت ہوجائے تو اس بطور حد کوڑے مارے، البتہ اسے ط طعن وملامت نہ کرے۔ اگر پھر زنا کار کا ارتکاب کرے تو اس مرتبہ بھی بطور حد کوڑے لگائے لیکن کسی قسم کی لعنت وملامت نہ کرے۔ پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہوجائے تواسے فروخت کردے، خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض ہی کیوں نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2234]
حدیث حاشیہ: اس لیے کہ ایسی فاحشہ عورت ایک مسلمان کے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ﴾(النور: 26) یعنی خبیث زانی عورتیں بدکار زانی مردوں کے لیے اور خبیث زانی مرد خبیث زانی عورتوں کے لیے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2234
2234. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ”جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کر اور وہ ثابت ہوجائے تو اس بطور حد کوڑے مارے، البتہ اسے ط طعن وملامت نہ کرے۔ اگر پھر زنا کار کا ارتکاب کرے تو اس مرتبہ بھی بطور حد کوڑے لگائے لیکن کسی قسم کی لعنت وملامت نہ کرے۔ پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہوجائے تواسے فروخت کردے، خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض ہی کیوں نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2234]
حدیث حاشیہ: (1) اگر لونڈی بار بار بدکاری کی مرتکب ہوتو مفت میں بھی اس سے جان چھڑائی جائے تو اچھا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں جو حد لگانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالک خود ہی اسے کوڑے مارنا شروع کردے بلکہ حد جاری کرنے کا حق عدالت کو ہے۔ حد جاری ہوجانے کے بعد اسے مزید طعن و ملامت کرنے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجرم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے اور وہ قانون کی رو سے کیفر کردار کو پہنچ گیا ہے۔ (3) اس حدیث کا عنوان سے بایں طور تعلق ہے کہ اس میں لونڈی کو فروخت کرنے کا حکم عام ہے اور اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہو۔ علامہ عینی ؒ نے اس استدلال پر اعتراض کیا ہے کہ حدیث میں جواز بیع کو دوبار یا سہ بار زنا کرنے پر موقوف رکھا گیا ہے جبکہ قائلین کے نزدیک تو مدبر کی بیع ہر حال میں درست ہے، خواہ وہ زنا کرے یا نہ کرے۔ (عمدة القاري: 526/8) لیکن علامہ موصوف کا یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ مدبرہ لونڈی اگر دوبار یاسہ بار زنا کرائے تو اسے فروخت کرنے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز خیال نہیں کرتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں،اس لیے یہ حدیث تو ان کے موقف کے خلاف ہے اور جو مدبر کی بیع کے قائل ہیں ان کے موافق ہے، چنانچہ اس میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو بھی شامل ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6839
6839. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر لونڈی زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہو جائے تو اسے (مالک کو) چاہیئے کہ کوڑے مارے لیکن طعن وملامت نہ کرے، پھر اگر زنا کرے تو کوڑے لگائے، اسے زجر تو بیخ نہ کرے، پھر اگر تیسری بار زنا کرے تو اسے فروخت کر دے، خواہ بالوں کی ایک رسی ہی کے بدلے میں ہو۔“ اسماعیل بن امیہ نے سعید سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کرنے میں لیث کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6839]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ لونڈی اگر زنا کرتی ہے تو اسے جلاوطن نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جلاوطن کرنے کا مقصد اسے گندے ماحول سے دور کرنا ہے اور یہ مقصد بیچنے سے حاصل ہو جاتا ہے، پھر جب اسے جلا وطن کر دیا جائے گا تو جلا وطنی اس کی خریدوفروخت میں رکاوٹ کا باعث ہے جبکہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ لونڈی کو جلاوطن نہ کیا جائے اور غلام کوکوڑے لگانے کے بعد چھ ماہ تک ملک بدر کر دیا جائے کیونکہ لونڈی کو جلاوطن کرنا عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنے کے مترادف ہے جبکہ غلام کے متعلق یہ مشکل پیش نہیں آسکتی۔ (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے کہ لونڈی کو سزا دی جائے لیکن اسے طعن وتشنیع کرنا اور ملک بدر کرنا درست نہیں۔ (فتح الباري: 203/122) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری کنیز نے زنا کیا ہے اور حمل سے وہ زنا واضح ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے پچاس کوڑے لگاؤ۔ “(السنن الکبریٰ للنسائي، حدیث: 7215) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچاس کوڑے مارنے کے متعلق کہا ہے، اسے ملک بدر کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا، اس سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6839