الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4436
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) هُوَ أَفقَهُ مَنه: بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کا واسطہ دے کر اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنے کا سوال کیا تھا، حالانکہ آپ اللہ کی کتاب ہی کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے، اس لیے اللہ کا واسطہ دینا خلاف ادب و تکریم تھا، لیکن فریق ثانی ادب و احترام سے بات کرنے کی اجازت طلب کی اور پھر پورا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا کہ میرا بیٹا اس کا نوکر تھا، اس کے گھر کام کاج کرتا تھا، اس لیے اس کی بیوی کے ساتھ ربط و تعلق کا موقعہ ملا، جس کا یہ نتیجہ نکلا، لیکن آج کل غیر محرموں سے خلط ملط رکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ عیاشی و فحاشی، گھر سے بھاگنے یا اغوا کر لینے کی صورت میں نکل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمان عقل کے ناخن نہیں لے رہے۔ (2) کم علم یا عام لوگوں نے بچے کے والد کو غلط بات بتائی کہ تیرے بچے کو رجم کیا جائے گا اور تم عورت کے خاوند کے ساتھ معاملہ طے کر سکتے ہو، اس لیے اس نے خاوند کو ایک لونڈی اور سو بکری دے کر صلح کر لی، جس سے معلوم ہوا دینی مسائل کم علم یا عوام سے نہیں پوچھنے چاہئیں، مسائل بتانا اہل علم کا کام ہے، لیکن آج اس کی پابندی بھی نہیں کی جاتی، جو اردو تراجم دیکھ لیتا ہے، وہ فقہیہ اور مجتہد بن بیٹھتا ہے، جس کے نتیجہ میں امت میں انتشار و افتراق بڑھ رہا ہے اور نئے نئے فتاویٰ جاری ہو رہے ہیں، اہل علم چونکہ مسئلہ کی تمام جزئیات اور دلائل سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے صحیح جواب دیتے ہیں، اس لیے جب اس نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے صحیح صورت حال سے آگاہ کیا اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، شادی شدہ کو رجم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اہل علم کے ہاں معروف و مشہور تھا اور آپ کے دور میں بھی اہل علم صحابہ مسائل کے جوابات دیتے تھے۔ (3) لا قضين بينكما بكتاب الله: کہ میں قطعی طور پر اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، سے ثابت ہوتا ہے، سنت ثابتہ یعنی صحیح حدیث کا حکم کتاب اللہ کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے، جس طرح قرآن پر عمل کرنا لازم ہے، کیونکہ شادی شدہ کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ کو کوڑوں کے ساتھ سال بھر کے لیے شہر بدر کرنا، قرآن سے صراحتا ثابت نہیں ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کتاب اللہ کا حکم قرار دے رہے ہیں، گویا جس طرح قرآن کا قانون و حکم کتاب اللہ ہے، اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون و حکم بھی کتاب اللہ ہے۔ (4) الوليدة والغنم رد: لونڈی اور بکریاں تجھے واپس ملیں گی، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی کتاب یا حکم کے خلاف باہمی رضا مندی سے کیا ہوا معاملہ درست تصور نہیں ہو گا، اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔ (5) زنا ایسا جرم ہے، جس کی پردہ پوشی ممکن ہو تو پردہ پوشی کی جائے گی اور خواہ مخواہ تجسس اور اشاعت سے گریز کیا جائے گا، لیکن صورت مذکورہ میں چونکہ یہ پھیل چکا تھا، بیوی کے خاوند اور بچے کے باپ نے اس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آنے سے پہلے، عوام اور اہل علم کے ہاں کر دیا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی دوسروں کی موجودگی میں اس کا ذکر کیا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انیس بن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ کو عورت کے پاس بھیجا تاکہ اگر وہ اعتراف کر لے تو اس پر حد جاری کی جا سکے، اگر انکار کر دے تو محض کسی کے اس دعویٰ کی بناء پر کہ میں نے فلاں سے زنا کیا ہے، بلا شہادت یا اقرار اس کی بات کو مان کر کسی پر حد نہ جاری کی جائے گی، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، عورت کو عدالت میں حاضر ہونا ضروری نہیں ہے، قاضی یا حاکم، خود یا اپنے مقررہ کردہ ولی کو بھیج کر بھی معاملہ کی تحقیق کر سکتا ہے، اور نائب اپنا اختیار استعمال کر کے خود فیصلہ کر سکتا ہے یا قاضی اور حاکم کو آ کر بتا سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو اعتراف کی صورت میں حد قائم کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن انہوں نے اس اختیار کو استعمال نہیں کیا اور آ کر عورت کے اعتراف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا اور آپ نے اسے رجم کر دینے کا حکم دیا۔ (6) حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر عورت اعتراف کر لے تو اس کو رجم کر دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ مجرم اگر قاضی یا حاکم کے سامنے جرم کا اعتراف کر لے اور وہاں کوئی اور حاضر نہ ہو تو وہ اس کے اقرار و اعتراف کے مطابق اسے سزا دے سکتا ہے، لیکن جمہور کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے، جب تک وہاں اور گواہ موجود نہ ہوں۔ (فتح الباری، ج 12، ص 174) تاکہ اس پر بدگمانی نہ ہو سکے، الزام تراشی سے بچ جائے۔