الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4434
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) بعض حضرات کے نزدیک یہ غامدیہ عورت ہی کا واقعہ ہے، کیونکہ یہ خاندان قبیلہ جہینہ سے تعلق رکھتا ہے، لیکن حافظ ابن حجر کے نزدیک یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، اس لیے یہاں عورت کے سرپرست کو یہ کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، کہیں غیرت میں آ کر اسے تنگ نہ کرنا، کیونکہ خاندان کی بے عزتی کی بنا پر خاندان کے لوگ اس سے برا سلوک کر سکتے تھے، نیز یہاں سرپرست کو کہا گیا ہے کہ وضع حمل کے بعد اس کو لے کر آنا، جو اس بات کی دلیل ہے، اس کا خاندان بچہ کی رضاعت کا انتظام کر سکتا تھا جبکہ غامدیہ عورت کے لیے کسی اور کو بچہ کی تربیت و کفالت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور رجم کرتے وقت کپڑے باندھے گئے تاکہ پردہ دری نہ ہو، اس لیے ائمہ کا اتفاق ہے کہ عورت کو بٹھا کر رجم کیا جائے گا اور مرد کو اکثر ائمہ کے نزدیک کھڑا کر کے رجم کیا جائے گا اور امام مالک کے نزدیک بٹھا کر اور بقول بعض امام کو اختیار ہے۔ (2) امام شافعی اور امام مالک کے ماننے والوں کے ہاں رجم کے وقت امام کا حاضر ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بقول ابن حجر مستحب ہے، فتح الباری، ج 12، ص 154۔ اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ پتھر مارنے کا آغاز کرے، امام ابو حنیفہ اور امام احمد کے نزدیک اگر رجم شہادت سے ثابت ہوا ہے تو ضروری ہے، شاہد (گواہ) رجم کا آغاز کریں اور اگر اقرار سے ثابت ہوا ہے تو امام آغاز کرے، علامہ تقی نے بعض ائمہ احناف سے، استحباب نقل کیا ہے اور خود بھی اس کو اختیار کیا ہے۔ (تکملہ ج 2، ص 457)