یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا: ” وہ نو ر ہے، میں اسے کہاں سے دیکھوں!“
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”وہ نور ہے، میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 178
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة النجم وقال: هذا حدیث حسن برقم (3282) انظر ((التحفة)) برقم (11938)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 443
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» کو محدثین نے مختلف طریقہ سے پڑھا ہے، ایک صورت وہی جس کے مطابق معنی کیا گیا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے، کہ اس کا حجاب نور ہے۔ یعنی وہ نور سے مستور ہے، نور کی وجہ سے اس کو دیکھا نہیں جا سکتا، نور سے آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں، اس لیے اس کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ بعض نے اس کو "نَوْرَانِيٌّ أَرَاہُ" پڑھا ہے، یعنی نور کی نسبت کی ہے اور نون کا اضافہ کرکے نُوْرِيٌّ کے بجائے نُوْرَانِيٌّ کہا ہے، ”کہ وہ نورانی ہے، میں اس کو دیکھتا ہوں۔ “ بعض پڑھتے ہیں "نُوْرٌ إِنِّيْ أَرَاہُ" ”وہ نور ہے، میں اس کو دیکھ رہا ہوں“ بعض پڑھتے ہیں: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» یعنی: نُوْرٌ أَیْنَ أَرَاہُ ”جہاں سے بھی دیکھوں وہ نور ہے۔ “ اگلی حدیث: (رَأَیْتُ نُوْرًا) ”میں نے نور کو دیکھا ہے۔ “ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اور علامہ آلوسی کا خیال ہے کہ «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» میں نور پر تنوین، تعظیم کے لیے نہیں ہے، اس لیے معنی ہے ”ایک قسم کا نور دیکھا ہے، جس کا پردے کی اوٹ سے ظہور ہوا تھا۔ “ شب معراج، نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا نہیں؟ اس بارے میں حضرت عائشہؓ، حضرت ابن مسعودؓ، وغیرہما کا نظریہ تو یہ ہے، کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ لیکن حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابو ذرؓ اور حضرت کعبؓ کا نظریہ ہے، کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے رؤیتِ قلبی اور رؤیتِ بصری دونوں منقول ہیں۔ (فتح الملہم: 1/336، فتح الباری: 8/774) علامہ آلوسی نے اس طرح حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ کے قول میں تطبیق دی ہے، کہ بقول بعض حضرت عائشہؓ نے جس رؤیت کی نفی کی ہے، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ اصلی نور ہے، جس پر کوئی آنکھ ٹک نہیں سکتی ہے، اور حضرت ابن عباسؓ کا مقصد اس نور کو دیکھنا ہے، جو آنکھوں کو چکا چوند نہیں کرتا۔ (فتح الملہم: 1/339) اور ﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾ کو حضرت عائشہؓ سے اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔ اس کا معنی ہے، ”احاطہ کرنا گھیرنا“ اور اللہ تعالیٰ کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ ادراک واحاطہ کی نفی سے رؤیت کی نفی نہیں ہوتی، سورۂ شعراء میں ہے: ﴿فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾(الشعراء: 61) ”اور جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہا، ہم یقینا گھیرے میں آگئے۔ “ موسیٰؑ نے جواب دیا: کَلّا ”ہرگز نہیں۔ “ یہاں دونوں جماعتوں کے لیے رؤیت ثابت کی گئی ہے، لیکن جب موسیٰؑ کے ساتھیوں نے ادراک کا خطرہ پیش کیا، تو حضرت موسیٰؑ نے ادراک (احاطہ) کی نفی کر دی، اس لیے سورۂ انعام کی آیت میں ادرا ک کی نفی ہے، رؤیت کی نفی نہیں۔ مزید برآں دنیا میں دیکھنے کی نفی ہے، لیکن دوسری آیات اور صحیح احادیث میں قیامت کے دن تمام مومنوں کے لیے رؤیت ثابت ہے اور نبی اکرم ﷺ کو بھی رویت آسمانوں پرہوئی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا استحالہ نہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی آنکھوں میں اس قدر قوت پیدا کر دی کہ آپ کے لیے دیکھنا ممکن ہو گیا۔ (ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب)