وحدثني ابو كامل فضيل بن حسين الجحدري ، حدثنا ابو عوانة ، عن سماك بن حرب ، عن جابر بن سمرة ، قال: " رايت ماعز بن مالك حين جيء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم رجل قصير اعضل ليس عليه رداء، فشهد على نفسه اربع مرات انه زنى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلعلك؟، قال: لا، والله إنه قد زنى الاخر، قال: فرجمه، ثم خطب، فقال: الا كلما نفرنا غازين في سبيل الله، خلف احدهم له نبيب كنبيب التيس يمنح احدهم الكثبة، اما والله إن يمكني من احدهم لانكلنه عنه ".وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " رَأَيْتُ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ جِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ قَصِيرٌ أَعْضَلُ لَيْسَ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أَنَّهُ زَنَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَعَلَّكَ؟، قَالَ: لَا، وَاللَّهِ إِنَّهُ قَدْ زَنَى الْأَخِرُ، قَالَ: فَرَجَمَهُ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: أَلَا كُلَّمَا نَفَرْنَا غَازِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَلَفَ أَحَدُهُمْ لَهُ نَبِيبٌ كَنَبِيبِ التَّيْسِ يَمْنَحُ أَحَدُهُمُ الْكُثْبَةَ، أَمَا وَاللَّهِ إِنْ يُمْكِنِّي مِنْ أَحَدِهِمْ لَأُنَكِّلَنَّهُ عَنْهُ ".
ابو عوانہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ماعز بن مالک کو، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے، دیکھا، وہ چھوٹے قد کے مضبوط پٹھوں والے آدمی تھے، ان پر کوئی چادر نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہی دی کہ انہوں نے زنا کیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید تم نے (کچھ اور مثلا: بوس و کنار کیا ہو گا؟) " انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اِس بدبخت نے زنا (ہی) کیا ہے۔ کہا: آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، پھر خطبہ دیا اور فرمایا: "سنو، جب ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو ان لوگوں میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا ہے، وہ نسل کشی کے بکرے کی طرح جوش سے آوازیں نکالتا ہے اور (عورتوں کو آمادہ کرنے کے لیے) معمولی چیز پیش کرتا ہے۔ سنو! اللہ کی قسم! اگر اُس نے مجھے ان میں سے کسی ایک کو (ثبوت سمیت) میرے قابو میں دیا تو میں اس کو عبرتناک سزا دوں گا
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا، جب اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، چھوٹا قد، مضبوط جسم، جس پر چادر نہیں ہے، اس نے اپنے بارے میں چار دفعہ زنا کرنے کی شہادت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تو نے۔۔؟“(بوس و کنار کیا ہو یا چٹکی لی ہو) اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! ذلیل اور کمینے آدمی نے زنا کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، پھر خطبہ دیا اور فرمایا: ”خبردار، جب بھی ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو کوئی فرد پیچھے رہتا ہے اور بکرے کی طرح جنسی آوازیں نکالتا ہے، کسی کو معمولی اور حقیر چیز پیش کرتا ہے، ہاں اللہ کی قسم! اگر ان میں سے کوئی میرے قابو میں آ گیا تو میں اس کو سامان عبرت بنا دوں گا۔“
برجل قصير أشعث ذي عضلات عليه إزار وقد زنى فرده مرتين ثم أمر به فرجم فقال رسول الله كلما نفرنا غازين في سبيل الله تخلف أحدكم ينب نبيب التيس يمنح إحداهن الكثبة إن الله لا يمكني من أحد منهم إلا جعلته نكالا أو نكلته
رجل قصير أعضل ليس عليه رداء فشهد على نفسه أربع مرات أنه زنى فقال رسول الله فلعلك قال لا والله إنه قد زنى الأخر قال فرجمه ألا كلما نفرنا غازين في سبيل الله خلف أحدهم له نبيب كنبيب التيس يمنح أحدهم الكثبة أما والله إن يمكني من أحدهم لأن
لعلك قبلتها قال لا والله إنه قد زنى الآخر قال فرجمه خطب فقال ألا كلما نفرنا في سبيل الله خلف أحدهم له نبيب كنبيب التيس يمنح إحداهن الكثبة أما إن الله إن يمكني من أحد منهم إلا نكلته عنهن
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4424
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اعضل: مضبوط تن و توش کا مالک یعنی مستحکم جسم والا۔ (2) آخر: حقیر، کمینہ۔ (3) نبيب: وہ آواز جو نر بکرا، بکری سے جفتی کرتے وقت نکالتا ہے۔ (4) الكثبة: تھوڑا سا دودھ یا کوئی معمولی اور حقیر چیز۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، مجرم کو اپنے اقرار اور اعتراف سے نکلنے کی راہ سمجھانا جائز ہے، بشرطیکہ وہ عادی مجرم نہ ہو اور اگر حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والی حدود کے اقرار سے پھر جاتا ہے اور اس کے خلاف بینہ موجود نہیں ہے تو اس کے رجوع کو بھی مان لیا جائے گا۔ (شرح نووي، مسلم، ج 2 ص 77) لیکن عادی مجرم کو عبرتناک سزا دینی چاہیے، جیسا کہ آپ کے خطبہ سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ سے معلوم ہوتا ہے، حضرت ماعز ان میں داخل نہیں تھے، کیونکہ ان کے بارے میں فرما رہے ہیں، میں ان کو اگر قابو میں آ گئے، عبرت بنا ڈالوں گا اور حضرت ماعز کو نکلنے کی تلقین فرما رہے ہیں اور آگے صریح روایت آ رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: واپس چلے جاؤ، اللہ سے بخشش طلب کرو، توبہ کر لو، بار بار یہ کہا، چوتھی بار پوچھا، دیوانے تو نہیں ہو، شراب تو نہیں پی ہے اور پھر اس کی توبہ کی تعریف فرمائی، جو انہوں نے حد کا تقاضا کر کے عملی صورت میں دیکھی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4424
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4425
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پستہ قد پراگندہ بال، مضبوط بدن آدمی لایا گیا، جو تہبند باندھے ہوئے تھا اور زنا کر چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو مرتبہ لوٹایا، پھر اس کو رجم کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی ہم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نکلتے ہیں، تم میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور بکرے کی طرح آوازیں نکالتا ہے اور ان میں سے کسی کو تھوڑا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4425]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت ہذال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک نوکر کی حیثیت سے رہتے تھے اور حضرت ہذال رضی اللہ عنہ کی مطلقہ لونڈی تھی، جو ان کی بکریاں چراتی تھی، حضرت ماعز رضی اللہ عنہ نے اس سے زنا کر لیا، پھر پشیمان ہو کر حضرت ہذال رضی اللہ عنہ کو بتایا تو انہوں نے ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا اور ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور وہ دور غربت کا تھا، بعض عورتیں جاہلیت کے دور میں یہ حرکت کرتی تھیں، بعد میں بھی بعض میں یہ عادت قائم رہی، وہ اپنی عادت کی بنا پر معمولی چیز کے عوض اپنی عزت نیلام کر دیتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری میں، چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ غزوہ میں سب شریک ہونے کی کوشش کرتے تھے، اس لیے بدکار مرد اور عورتوں کو اس کا موقع مل جاتا تھا، اس لیے آپﷺ نے جب ایک تقریب پیدا ہو گئی تو موقعہ کی مناسبت سے ان لوگوں کو متنبہ فرمایا تاکہ وہ اس حرکت سے باز رہیں، وگرنہ عبرتناک سزا کے لیے تیار رہیں، اس سے مراد وہ صحابی نہ تھا جس نے خود کو پیش کیا تھا۔