معاذ بن معاذ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن عون نے محمد (بن سیرین) سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن بشر انصاری سے روایت کی، اور اس حدیث کو پیچھے لے گئے اور اسے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا تذکرہ کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اس سے) تمہارا مقصود کیا ہے؟" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: کسی آدمی کی بیوی ہے (بچے کو) دودھ پلا رہی ہوتی ہے، وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور ناپسند کرتا ہے کہ وہ اس سے حاملہ ہو۔ اور کسی شخص کی لونڈی ہے وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور ناپسند کرتا ہے کہ وہ اس سے حاملہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی حرج نہیں کہ تم ایسا نہ کرو، یہ (بچے کا پیدا ہونا یا نہ ہونا) تو تقدیر کا معاملہ ہے۔" ابن عون نے کہا: میں نے یہ حدیث حسن (بصری) کو سنائی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تو گویا ڈانٹ ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا ذکر چھڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیوں کرتے ہو؟“ صحابہ نے عرض کیا۔ انسان کی بیوی دودھ پلا رہی ہوتی ہے اور وہ اس سے مباشرت کرتا ہے، لیکن وہ اس کے حاملہ ہونے کو پسند نہیں کرتا (اس لیے عزل کرتا ہے) اور ایک انسان کی لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور اس کا حاملہ ہونا ناپسند کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ (حمل) تو تقدیر کی بات ہے۔“ ابن عون کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث حسن بصری کو سنائی، تو اس نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو گویا کہ سرزنش و توبیخ ہے یعنی عزل پر ناراضگی کا اظہار ہے۔