Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ
نکاح کے احکام و مسائل
22. باب حُكْمِ الْعَزْلِ:
باب: عزل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3550
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حدثنا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: فَرَدَّ الْحَدِيثَ حَتَّى رَدَّهُ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ ، قَالَ: ذُكِرَ الْعَزْلُ عَنْدَ َالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " وَمَا ذَاكُمْ؟ "، قَالُوا: الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ، فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ مِنْهُ، وَالرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ مِنْهُ، قَالَ: " فَلَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا ذَاكُمْ، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ "، قَالَ: ابْنُ عَوْنٍ: فَحَدَّثْتُ بِهِ الْحَسَنَ، فقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌ.
معاذ بن معاذ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن عون نے محمد (بن سیرین) سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن بشر انصاری سے روایت کی، اور اس حدیث کو پیچھے لے گئے اور اسے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا تذکرہ کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اس سے) تمہارا مقصود کیا ہے؟" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: کسی آدمی کی بیوی ہے (بچے کو) دودھ پلا رہی ہوتی ہے، وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور ناپسند کرتا ہے کہ وہ اس سے حاملہ ہو۔ اور کسی شخص کی لونڈی ہے وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور ناپسند کرتا ہے کہ وہ اس سے حاملہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی حرج نہیں کہ تم ایسا نہ کرو، یہ (بچے کا پیدا ہونا یا نہ ہونا) تو تقدیر کا معاملہ ہے۔" ابن عون نے کہا: میں نے یہ حدیث حسن (بصری) کو سنائی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تو گویا ڈانٹ ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا ذکر چھڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیوں کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا۔ انسان کی بیوی دودھ پلا رہی ہوتی ہے اور وہ اس سے مباشرت کرتا ہے، لیکن وہ اس کے حاملہ ہونے کو پسند نہیں کرتا (اس لیے عزل کرتا ہے) اور ایک انسان کی لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے مباشرت کرتا ہے اور اس کا حاملہ ہونا ناپسند کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ (حمل) تو تقدیر کی بات ہے۔ ابن عون کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث حسن بصری کو سنائی، تو اس نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو گویا کہ سرزنش و توبیخ ہے یعنی عزل پر ناراضگی کا اظہار ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3550 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3550  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے عزل کرنے کی دو وجودہ ثابت ہوتی ہیں،
اور یہ دونوں شخصی اور انفرادی ہیں،
اور کسی خاص مجبوری اور عذر کی بنا پر ہیں۔

آزاد عورت سے انزال کے وقت اس لیے الگ ہو کر مادہ منویہ باہر خارج کرتا ہے کیونکہ وہ دودھ پلارہی ہوتی ہے اور حمل ٹھہرنے کی صورت میں دودھ پینے والے بچہ کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

لونڈی سے عزل اس لیے کرنا چاہتا ہے تاکہ اولاد لونڈی اور غلام بننے سے محفوظ ہو جائے یا اس کی قیمت میں کمی واقع نہ ہو جائے یا ام ولد بن جانے کی صورت میں اس کو فروخت کرنا ممکن نہ رہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا،
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ عزل کیا جائے گا،
بچہ پیدا نہیں ہو گا،
اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی تدبیرکار گرنہ ہو گی،
اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا،
جیسا کہ آ گے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تصریح آ رہی ہے،
کیونکہ ایک آدمی اس مقصد سے بیوی سے عزل کرتا ہے کہ بیوی کو حمل ٹھہرے،
تو اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت بچہ پیدا کرنے کی ہو گی تو ایسا ہو گا کہ وہ وقت پر عزل نہ کر سکے گا اور مادہ منویہ اندر ہی خارج ہو جائے گا،
یا عزل کرے گا لیکن مادہ کا کوئی جز پہلے ہی خارج ہو جائے گا اور اسے پتہ بھی نہ چل سکے گا،
اس طرح انسانی تدبیر نا کام رہے گی اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔
اس لیے ان احادیث کی روشنی میں آئمہ نے عزل کو مکروہ ہی قرار دیا ہے خلفائے راشدین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی مؤقف تھا کیونکہ اس میں درحقیقت غیر شعوری یا شعوری طور پر نسل انسانی کی افزائش کو کم کرنا اور عورت کی لذت کو بھی منقطع کرنا ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت اولاد پر برانگیختہ کیا ہے اور ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے جو بچہ پیدا کرنے والی ہو،
احناف،
موالک اور شوافع کے نزدیک آزاد عورت کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر اس سے عزل نہیں ہوسکتا۔
اب بالفرض اگر عزل کی اجازت بھی ہو تو اس کی بنیاد پر ضبط ولادت کی تحریک اور منصوبہ بندی کا جواز کیسے نکل سکتا ہے،
جس کی بنیاد زمانہ جاہلیت کا گمراہانہ نقطہ نظر ہے کہ اگر انسانی نسل بڑھتی رہےگی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا تو تمام انسانوں کو روٹی نہ ملے گی۔
گویا جو ذات انسانوں کو پیدا کرتی ہے وہ رازق نہیں ہے انسان خود اپنا رازق ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شخصی اور انفرادی مصلحت کا تقاضا تو عزل ہو سکتا ہے لیکن نوع انسانی کی مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ عزل نہ کیا جائے تاکہ ولادت زیادہ ہو اور نسل انسانی بڑھتی رہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3550   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 359  
´عزل مع الکراہت جائز ہے`
«. . . عن ابن محيريز انه قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري فجلست إليه فسالته عن العزل، فقال ابو سعيد الخدري . . .»
. . . ابن محیریز (تابعی) سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا پھر میں ان پاس بیٹھ گیا اور عزل کے بارے میں پوچھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 359]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2542، من حديث مالك، ومسلم 125/1438، من حديث ربيعه بن أبى عبدالرحمٰن به]
تفقه:
➊ عزل سے مراد یہ ہے کہ شرمگاہ میں دخول کے بعد انزال اندر نہ کیا جائے بلکہ شرمگاہ سے باہر انزال کیا جائے۔ یہ عزل مع الکراہت جائز ہے۔ کراہت کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں عزل کی ممانعت ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عزل نہیں کرتے تھے اور عزل کو ناپسند کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 2/595 ح1303، وسنده صحيح] جبکہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عزل کرتے تھے۔ [ايضاً ح1301، وهو حديث صحيح]
➌ اگر کسی شخص کی لونڈی اس سے حالتِ حمل میں ہے تو مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اسے بیچنا جائز نہیں ہے۔ [التمهيد 3/136]
➍ تقدیر برحق ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔
➎ تمام معاملات میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنے میں ہی نجات اور کامیابی ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یا حدیثِ رسول کے مقابلے میں اجتہاد وقیاس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
➐ ان احادیث میں ضبطِ ولادت کی دلیل نہیں ہے، اس لئے کہ عزل لونڈیوں سے کیا جاتا تھا جن سے اولاد مطلوب نہیں ہوتی بخلاف آزاد عورتوں کے کہ ان سے اولاد مطلوب ہے۔
➑ بغیر شرعی عذر کے شادی سے انکار کرنا فطرت سے جنگ ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 161   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 878  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی ہے۔ میں اس سے عزل کرتا ہوں اور اس کا حاملہ ہونا مجھے پسند نہیں اور میں وہی چاہتا ہوں جو مرد چاہتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزل تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود نے جھوٹ بولا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے تو اسے تو پھیر نہیں سکتا۔ اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں نسائی اور طحاوی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 878»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب ما جاء في العزل، حديث:2171، والنسائي، النكاح، حديث:3329، وأحمد:3 /33، والطحاوي في مشكل الآثار:2 /372، وحديث البيهقي(7 /230)يغني عنه.»
تشریح:
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے: جس چیز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جھوٹا قرار دیا ہے وہ ان کا یہ خیال ہے کہ عزل کی صورت میں حمل کا تصور ہی نہیں اور انھوں نے اسے‘ زندہ درگور کرنے کے ذریعے سے نسل کو قطع کرنے کے مقام پر رکھا ہے۔
مگر میں ان کے اس نظریے اور خیال کی تکذیب کرتا ہوں اور خبر دیتا ہوں کہ عزل حمل کو ہرگز نہیں روک سکتا جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے۔
اور جب اس کا ارادہ ہی تخلیق کا نہ ہو تو پھر وہ حقیقت میں زندہ درگور کرنا ہی نہیں۔
حدیث جدامہ میں بھی اسے خفیہ زندہ درگور کرنے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ مرد حمل سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عزل کرتا ہے۔
اسی بنا پر اس کے ارادے اور قصد کو زندہ درگور کرنے کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ان دونوں میں فرق ہے کہ زندہ درگور تو براہ راست ایک ظاہر عمل ہے اور اس میں قصد اور فعل دونوں جمع ہوتے ہیں مگر عزل کا تعلق صرف قصد و ارادے سے ہے، اسی وجہ سے اسے وأد خفی کہا گیا ہے۔
اس سے دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جدامہ کی حدیث عزل کی تحریم پر دلالت نہیں کرتی‘ اس میں صرف کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار ہے کیونکہ اس میں تقدیر کا مقابلہ ہوتا ہے اور عزل کرنے والا اپنی تدبیر کے ذریعے سے تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دور جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوت تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوت جماع باقی رہنے دیتے ہیں‘ تو اسے عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے بلکہ منع حمل کے لیے درحقیقت یہ سبب ہے ہی نہیں۔
اس کے باوجود عازل خود مختار ہے اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے۔
اور جہاں تک رگ تولید کو کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی اور دائمی ہے۔
اس رگ کے کٹ جانے کے بعد مرد کا اختیار باقی نہیں رہتا‘ نیز اس میں اللہ کی تخلیق کو بدل دینا‘ جسمانی نظام کو تبدیل کر دینا اور بعض قوتوں کے عمل کو بے کار کر دینا ہے۔
اور رگ تولید کو کاٹنے کا یہ عمل کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا کر دینے کا سبب بن جاتا ہے جو کہ کٹی ہوئی رگ کی جگہ‘ دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے۔
ہر باخبر آدمی اس کے برے نتائج اوراثرات کو خوب جانتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 878   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3329  
´(جماع کے دوران) شرمگاہ سے باہر منی کے اخراج کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا یعنی عزل کا ذکر ہوا، تو آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ (ذرا تفصیل بتاؤ) ہم نے کہا: آدمی کے پاس بیوی ہوتی ہے، اور وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور حمل کو ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے وہ اس سے صحبت کرتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ اس کو اس سے حمل رہ جائے ۲؎، آپ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہیں نقصان نہیں ہے، یہ تو صرف تقدیر کا م [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3329]
اردو حاشہ:
(1) عزل سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی (یا لونڈی) سے جماع کرے مگر انزال باہر کرے۔ مقصد یہ ہے کہ حمل نہ ٹھہرے۔
(2) عزل کا جائز ہونا یا ناجائز ہونا نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت نیک ہو‘ مثلاً بچے (دودھ پینے والے) کی صحت متاثر ہو تو یا عورت کی صحت حمل کی اجازت نہ دیتی ہو تو عزل جائز ہے اور اگر نیت خراب ہو‘ مثلاً: میں غریب ہوں‘ بچوں کے اخراجات کہاں سے دوں گا؟ وغیرہ تو عزل ناجائز ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی سختی سے نہیں روکا‘ اچھا بھی نہیں سمجھا بلکہ معاملہ بین بین رکھا ہے۔ ممکن ہے وہ عزل کرہی نہ سکے۔ بے قابو ہوجائے یا قلیل انزال معلوم ہی نہ ہو۔ گویا اصل فیصلہ تو تقدیر (یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے) کا ہے۔ ہاں‘ جائز مقام پر نیک نیتی کے ساتھ عزل کو بطور سبب اختیار کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں تطبیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3329   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2170  
´عزل کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل ۱؎ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ وہ ایسا نہ کرے)، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نفس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ۲؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: قزعہ، زیاد کے غلام ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2170]
فوائد ومسائل:
مباشرت کرتے وقت مرد اپنی منی عورت کی فرج میں نکالنے کی بجائے باہر نکالے اسے عزل کہتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2170   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2172  
´عزل کا بیان۔`
عبداللہ بن محیریز کہتے ہیں کہ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، ان سے عزل کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے جواب دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ غزوہ بنی مصطلق میں نکلے تو ہمیں کچھ عربی لونڈیاں ہاتھ لگیں، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورتوں سے الگ رہنا ہم پر گراں گزرنے لگا ہم ان لونڈیوں کو فدیہ میں لینا چاہ رہے تھے اس لیے حمل کے ڈر سے ہم ان سے عزل کرنا چاہ رہے تھے، پھر ہم نے اپنے (جی میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں تو آپ سے اس بارے میں پوچھنے سے پہلے ہم عزل کریں (تو یہ کیو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2172]
فوائد ومسائل:

عزل ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
نبیﷺ کا فرمان قابل توجہ ہے۔
آپ نے فرمایا: اگر نہ کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ اگر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔
یعنی کراہت کے ساتھ اس کا جواز باقی رکھا تاکہ ناگزیر قسم کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش باقی رہے۔
عزل کی یہ صورت عہد رسالت و عہد صحابہ میں رائج تھی جسے کراہت کے ساتھ جائز رکھا گیا۔
لیکن آج کل اس کے متبادل کئی صورتیں نکل آئی ہیں۔
جیسے ساتھی (کنڈومز) کا استعمال۔


بعض دوائیں یا انجکشن جن کے استعمال سے کچھ مدت تک حمل قرار نہیں پاتا۔


عورتوں کے رحم کا آپریشن جس کے بعد عورت حاملہ نہیں ہوتی۔


نس بندی جس میں مرد کے آلہ تناسل کا آپریشن کرکے اسے بارآور کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
پہلی دو صورتیں عارضی ہیں (عزل حمل سے بچنے کا ایک طریقہ ہے) اس لیے یہ دونوں طریقے حسب ضرورت جائز ہوں گے۔
جیسے عورت کی صحت کمزور ہو اور مزید ولادت اس کی جان کے لیے خطرے کا باعث ہو۔
اس قسم کی صورت میں دونوں طریقوں میں سے کوئی سا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کا مقصد عورت کے حسن وجمال کی حفاظت ہو یا بچوں کو کھلانے پلانے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خوف ہوتو اس قسم کے مقاصد کے لیے ان دونوں عارضی طریقوں کا بھی اختیار کرنا ناجائز ہوگا۔
اور تیسرا اور چوتھا طریقہ جس میں مستقل طور پر حاملہ ہونے یا حاملہ کرنے کا سد باب کر دیا جاتا ہے یکسر حرام ناجائز اور اللہ کی تخلیق کو بدلنا ہے۔
اس کا جواز کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2172   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1926  
´عزل کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟ ایسا نہ کرنے میں تمہیں کوئی نقصان نہیں ہے، اس لیے کہ جس جان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونا مقدر کیا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔‏‏‏‏ ۱؎ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1926]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عزل کا مطلب ہے عورت سے جماع کرتے وقت جب انزال ہونے لگے تو پیچھے ہٹ جائے تاکہ حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ رہے۔

(2)
لونڈیوں سے اس لیے عزل کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہ ہو کیونکہ اولاد ہونے کے بعد اگر لونڈی کو بیچا جائے تو اس کا بچہ پہلے مالک کے پاس رہ جائے گا۔
اس طرح ماں بیٹے میں جدائی ہو جائے گی جو نامناسب ہے۔

(3)
اگر نہ کرو تو کوئی حرج نہیں۔
اس میں اشارہ ہے کہ اجتناب بہتر ہے تاہم سختی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ صحیحین میں حضرت جابر سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن نازل ہو رہا تھا۔ (صحیح البخاري، النکاح، باب العزل، حدیث: 5209، وصحیح مسلم، النکاح، باب حکم العزل، حدیث: 1440)

 یعنی ہم نبی اکرم ﷺ کے عہد میں بھی ایسا کرتے تھے اور اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس سے منع فرما دیتا۔
بنا بریں علمائے کرام اس کی بابت لکھتے ہیں کہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہ کیا جائے کیونکہ اسے اولاد پیدا کرنے کا حق ہے، لہٰذا اگر عورت بیماری یا کمزوری کی وجہ سے حمل وولادت کی مشقت برداشت نہ کرسکتی ہو تو عزل کیا جا سکتا ہے، نیز مانع حمل گولیوں کا بھی بالکل یہی حکم ہے۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمة الله عليه  اس کی بابت یوں لکھتے ہيں کہ عورتوں کو درج ذیل دو شرطوں کے بغیر مانع حمل گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہییں:

(ا)
عورت کو اس کی واقعی ضرورت ہو، مثلا:
وہ بیمار ہو اور ہر سال حمل کی متحمل نہ ہو سکتی ہویا بے حد لاغر اور کمزور ہو یا کچھ اور ایسے موانع ہوں جن کی وجہ سے ہر سال حمل ہونا اس کے لیے جان لیوا اور نقصان دہ ہو۔

(ب)
شوہر نے اسے اس کی اجازت دے دی ہو کیونکہ شوہر کا یہ حق ہے کہ بیوی اس کے لیے اولاد پیدا کرے، علاوہ ازیں ان گولیوں کے استعمال کے لیے طبيب سے یہ مشورہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کا استعمال نقصان دہ تو نہیں لہٰذا جب یہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو پھر ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسی گولیاں استعمال نہ کی جائیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانع حمل ہوں کیونکہ یہ قطع نسل کے مترادف ہو گا جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیئے:
(فتاوی اسلامیہ، (اردو)
: 3؍215، 216 مطبوعہ دارالسلام)


(4)
خاندنی منصوبہ بندی کا موجودہ تصور یہ ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو ان کا خرچ برداشت کرنا اور دیکھ بھال کرنا مشکل ہو گا۔
یہ ایک غلط تصور ہے۔
جاہلیت میں جو لوگ اس ڈر سے بچوں کو قتل کر دیتے تھے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرً‌ا﴾ (بنی اسرائیل: 31)
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
ان کو بھی ہم ہی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔
یقیناً ان کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔
مغرب کے عیسائی ممالک مسلمانوں کو اس کی ترغیب اس لیے دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافے سے خوف زدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1926   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1138  
´عزل کی کراہت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟۔‏‏‏‏ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1138]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے،
خصوصاً جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتاہے،
اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔
تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1138   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:764  
764- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا تذکرہ کیاگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا۔ کہ کوئی شخص ایسا نہ کرے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا) جس بھی جان نے پیدا ہونا ہو اس کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے (یا اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کر دینا ہے)۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:764]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عزل اولاد سے مانع نہیں ہے بلکہ جب اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت روکنے پر قادر نہیں ہے۔ ویسے عزل کا جواز ہے۔ عزل سے مراد یہ ہے کہ بیوی سے صحبت کرتے وقت اندام نہانی سے باہر انزال کرنا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 765   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3544  
ابن محریز سے روایت ہے کہ میں اور ابو صرمہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ابو صرمہ نے ان سے دریافت کیا۔ اے ابو سعید! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سنا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنو مصطلق (غزوہ مریسیع) میں شریک ہوئے تو ہم نے عرب کی معزز عورتوں کو قیدی بنا لیا، ہمیں عورتوں سے علیحدہ ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا یا عورتوں سے علیحدگی ہمارے لیے شاق گزر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3544]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
غزوہ بنو مصطلق جسے غزوہ مریسیع بھی کہا جاتا ہے یہ چھ ہجری شعبان میں پیش آیا تو بنو مصطلق ایک قبیلہ ہے اور مریسیع ایک چشمہ ہے (كَرَائِم)
کَرِیْمَہ اسکی جمع ہے شریف اور نفیس،
عَزْوِیَہ:
بیویوں سے علیحدگی۔
(سِبْيَاياً)
سَبِیَہ کی جمع ہے قیدی لونڈیاں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3544   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2229  
2229. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئےتھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں جو لونڈیاں ملتی ہیں (ہم ان سے جماع کرتے ہیں لیکن) ان کے عوض قیمت وصول کرنا بھی پسند کرتے ہیں، ایسے حالات میں عزل کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے ہو؟تم ایسا نہ بھی کرو تو کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ جس روح کا آنا اللہ نے لکھ دیاہے وہ تو آکے رہے گی (تم عزل کرو یا نہ کرو)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2229]
حدیث حاشیہ:
عزل کہتے ہیں جماع کے دوران انزال کے قریب ذکر کو فرج سے باہر نکال لینا، تاکہ عورت کو حمل نہ رہ سکے۔
آنحضرت ﷺ نے گویا ایک طرح سے اسے ناپسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا یہ عمل باطل ہے۔
جو جان پیدا ہونے والی مقدر ہے وہ تو اس صورت میں بھی ضرور پیدا ہوکر رہے گی۔
اس حدیث سے لونڈی غلام کی بیع ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5210  
5210. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قیدی عورتیں ہمارے ہاتھ لگیں تو ہم نے ان سے عزل کیا پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم واقعی ایسا کرتے ہو؟ تین مرتبہ آپ نے کلمات فرمائے۔ پھر گویا ہوئے: قیامت تک جو روح بھی پیدا ہونے والی ہے وہ پیدا ہو کر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5210]
حدیث حاشیہ:
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5210   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6603  
6603. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے خبر دی کہ وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا؛ اللہ کے رسول! ہم لونڈیوں سے ہم بستری کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مال سے بھی بہت پیار ہے لہذا آپ کا عزل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا تم ایسا کرتے ہو؟ اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کا پیدا ہونا اللہ نے لکھ دیا تو وہ پیدا ہوکر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6603]
حدیث حاشیہ:
اس کا تجربہ آج کے دور میں بھی برابر ہورہا ہے۔
صدق النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
انزال کے وقت ذکرباہر نکال لینا عزل کہلاتا ہے۔
آپ نے اسے پسند نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6603   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7409  
7409. سیدنا ابو سیعد خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہیں غزوہ بنو مصطلق میں کچھ لونڈیاں بطور غنیمت ملیں۔ صحابہ کرام نے چاہا کہ ان سے ہم بستری کریں لیکن انہیں حمل نہ ٹھہرے، اس لیے انہوں نے نبی ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم عزل نہ بھی کرو تو کوئی قباحت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھ دیا ہے جو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ مجاہد نے قزعہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابو سعید ؓ سے سنا، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی جان جس کا پیدا ہونا مقدر ہے اللہ اسے ضرور پیدا کر کے رہے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7409]
حدیث حاشیہ:
عزل کا معنی صحبت کرنے پر انزال کےوقت ذکر کو باہر نکال دینا ہے۔
آیت کے الفاظ خالق الباری المصور ہرسہ کا اس سے اثبات ہوتا ہے، یہی باب سے تعلق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7409   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2542  
2542. ابن محیریز کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو سعید خدری ؒ کو دیکھا تو ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواباً فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بنو مصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو ہمیں عرب کے چند قیدی ہاتھ لگے۔ چونکہ ہم پر عورتوں سے الگ رہنا گراں ہوگیا تھا۔ اس لیے ہمیں عورتوں سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ ہم نے ان سے عزل کرنا چاہا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ ایسا مت کرو کیونکہ کوئی بھی جان جوقیامت تک پیدا ہونے والی ہو، وہ پیدا ہوکر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2542]
حدیث حاشیہ:
عزل کہتے ہیں انزال کے وقت ذکر باہر نکال لینے کو تاکہ رحم میں منی نہ پہنچے اور عورت کو حمل نہ رہے۔
آنحضرت ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا، اسی لیے ارشاد ہوا کہ تمہارے عزل کرنے سے مقدر الٰہی کے مطابق پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش رک نہیں سکتی۔
عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھاگیا، کیوں کہ اس میں قطع اور تقلیل نسل ہے۔
بحالات موجودہ جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیل نسل کے پروگرام چلائے جارہے ہیں، شریعت اسلامی سے اس کا علی الاطلاق جواز ڈھونڈنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ قطع نسل ہی کی ایک صورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2542   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4138  
4138. حضرت ابن محریز سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا، میں نے وہاں حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا تو ان کی خدمت میں بیٹھ گیا اور ان سے عزل کے متعلق سوال کیا۔ حضرت بو سعید خدری ؓ نے فرمایا: ہم غزوہ بنو مصطلق میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہمیں عرب کی قیدی عورتیں دستیاب ہوئیں، پھر ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی کیونکہ ہمارے لیے مجرد رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کریں، پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں تو پھر ہم آپ سے پوچھے بغیر کیونکر عزل کریں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ بھی کرو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4138]
حدیث حاشیہ:
عزل کا مفہوم یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے اور جب انزال کا وقت قریب ہو تو آلہ تناسل کو نکال لے تاکہ بچہ پیدا نہ ہو۔
قطع نسل کی یہ بھی ایک صورت تھی جسے آنحضرت ﷺ نے پسند نہیں فرمایا آج طرح طرح سے قطع نسل کی دنیا کے بیشتر ممالک میں کوشش جاری ہے جو اسلام کی رو سے قطعاً نا جائز ہے۔
وقد ذکر ھذہ القصة ابن سعد نحوما ذکر ابن إسحاق وإن الحرث کان جمع جموعا وأرسل عینا تأتیه بخبر المسلمین فظفروا به فقتلوہ فلما بلغه ذالك وتفرق الجمع وانتھی النبي صلی اللہ علیه وسلم إلی الماء وھو المریسیع فصف أصحابه القتال ورموھم بالنبل ثم حملوا علیھم حملة واحدة فما أفلت منھم انسان بل قتل منھم عشرة وأسر الباقون رجالا ونساء۔
(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ غزوہ بنو مصطلق میں مسلمانوں نے دس آدمیوں کو قتل کیا اور باقی کو قید کر لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4138   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2229  
2229. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئےتھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں جو لونڈیاں ملتی ہیں (ہم ان سے جماع کرتے ہیں لیکن) ان کے عوض قیمت وصول کرنا بھی پسند کرتے ہیں، ایسے حالات میں عزل کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے ہو؟تم ایسا نہ بھی کرو تو کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ جس روح کا آنا اللہ نے لکھ دیاہے وہ تو آکے رہے گی (تم عزل کرو یا نہ کرو)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2229]
حدیث حاشیہ:
(1)
عزل یہ ہے کہ عورت سے جنسی تعلق تو قائم کرلیا جائے لیکن انزال سے قبل آدمی عورت سے الگ ہوجائے تاکہ حمل قرار نہ پاسکے۔
یہ تدبیر مرد عورت دونوں کے لیے تکلیف دہ اور خلاف فطرت ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی لونڈیوں سے جنسی تعلقات تو قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں فروخت کرکے دام کھرے بھی کرنا چاہتے ہیں، البتہ یہ نہیں چاہتے کہ جماع کے نتیجے میں ان سے کوئی اولاد پیدا ہوجائے کیونکہ ایسا ہونے سے وہ ام ولد بن جائے گی جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔
کیا ایسے حالات میں عزل کیا جاسکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے انھیں تعلیم دی کہ اگر تم لونڈی فروخت کرنے کے خواہش مند ہوتو حمل سے بچنے کے لیے ضبط نفس سے کام لو کیونکہ جو تدبیر تم نے اختیار کی ہے یہ اتنی کار گر ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ دریا میں اترنے کے بعد اپنا دامن تر ہونے سے کون بچا سکتا ہے۔
(2)
بہر حال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے لونڈی اور غلام کی خریدوفروخت کو ثابت کیا ہے۔
دیگر مباحث ہم کتاب النکاح میں بیان کریں گے۔
بإذن الله.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2542  
2542. ابن محیریز کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو سعید خدری ؒ کو دیکھا تو ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواباً فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بنو مصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو ہمیں عرب کے چند قیدی ہاتھ لگے۔ چونکہ ہم پر عورتوں سے الگ رہنا گراں ہوگیا تھا۔ اس لیے ہمیں عورتوں سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ ہم نے ان سے عزل کرنا چاہا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ ایسا مت کرو کیونکہ کوئی بھی جان جوقیامت تک پیدا ہونے والی ہو، وہ پیدا ہوکر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2542]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عربوں کو نہ صرف غلام لونڈی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایسی لونڈیوں سے جماع بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ ایک حیض آ جانے کے بعد لونڈی سے جماع کرنا جائز ہے تاکہ اس کا رحم فارغ ہو جائے۔
(2)
عزل، خاوند بیوی کا ایک نجی معاملہ ہے اسے بنیاد بنا کر فیملی پلاننگ کے متعلق قومی تحریک چلانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
اس کے متعلق مکمل بحث کتاب النکاح میں آئے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2542   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4138  
4138. حضرت ابن محریز سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا، میں نے وہاں حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا تو ان کی خدمت میں بیٹھ گیا اور ان سے عزل کے متعلق سوال کیا۔ حضرت بو سعید خدری ؓ نے فرمایا: ہم غزوہ بنو مصطلق میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہمیں عرب کی قیدی عورتیں دستیاب ہوئیں، پھر ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی کیونکہ ہمارے لیے مجرد رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کریں، پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں تو پھر ہم آپ سے پوچھے بغیر کیونکر عزل کریں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ بھی کرو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4138]
حدیث حاشیہ:

غزوہ بنو مصطلق میں عورتیں قیدی بن کر مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔
مجاہدین کو بیویوں سے جدا ہوئے عرصہ گزرگیا تھا۔
اس لیے انھیں اپنی لونڈیوں سے جماع کرنے کی خواہش ہوئی لیکن یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر انھیں حمل ٹھہر گیا تو امہات اولاد قرارپائیں گی اور انھیں فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔
اس لیے انھوں نے عزل کرنا چاہا تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے اسے ممنوع قراردیا۔

اس حدیث کو خاندانی منصوبہ بندی کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا تا ہے۔
حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا بلکہ بعض روایات میں عزل کرنے کو خفیہ طور پر زندہ درگورکرنے سے تعبیر فرمایا، نیز یہ ایک بیوی اور خاوند کا پرائیوٹ اور انفرادی معاملہ ہے۔
اس پر قومی تحریک کی بنیاد رکھنا نری حماقت ہے اس کی مزید تفصیل کتاب النکاح میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4138   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6603  
6603. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے خبر دی کہ وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا؛ اللہ کے رسول! ہم لونڈیوں سے ہم بستری کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مال سے بھی بہت پیار ہے لہذا آپ کا عزل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا تم ایسا کرتے ہو؟ اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کا پیدا ہونا اللہ نے لکھ دیا تو وہ پیدا ہوکر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6603]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس لونڈی کو حمل ہو جائے اور وہ بچہ جنم دے لے تو وہ ام ولد بن جاتی ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ آدمی یہ تدبیر کرنا چاہتا تھا کہ ہم بستری بھی ہو جائے لیکن حمل کا امکان بھی نہ رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کو پسند نہیں فرمایا اور اس کے بے کار ہونے کی طرف اشارہ کر دیا۔
ایک دوسری حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
میری ایک باندی ہے جو میرے کام کاج کرتی ہے اور میں اس سے صحبت بھی کرتا ہوں۔
مجھے یہ پسند نہیں کہ وہ حاملہ ہو جائے (کیا میں عزل کر سکتا ہوں؟)
آپ نے فرمایا:
\'\'اگر تم چاہو تو عزل کر لو مگر اس کے مقدر میں جو بچہ لکھا جا چکا ہے وہ اسے جنم دے کر رہے گی۔
\'\' کچھ عرصہ گزرا کہ وہی شخص پھر حاضر ہوا اور عرض کی کہ وہ تو حاملہ ہو گئی ہے۔
آپ نے فرمایا:
\'\'میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جو بچہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے وہ اس سے ضرور پیدا ہو کر رہے گا۔
\'\' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439) (2)
حدیث کی مراد یہ نہیں کہ اگر تقدیر میں اولاد مقدر ہو گی تو مرد کے نطفے کے بغیر بھی ہو کر رہے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر اولاد مقدر ہو گی تو عزل کے بعد بھی غیر شعوری طور پر اتنا مادہ رحم میں پہنچ جائے گا جو بچہ پیدا ہونے کے لیے کافی ہو گا، چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تو اس وقت دوبارہ آپ نے اپنی بات دہرا دی۔
(3)
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ تقدیر تو آ کر رہتی ہے مگر اسباب کو توڑ کر نہیں بلکہ اس طرح کہ اس کے اسباب بھی ہو کر رہتے ہیں، مثلاً:
ممکن ہے کہ عزل سے پہلے نطفے کا کوئی نہ کوئی حصہ نکل جائے اور اسی سے بچہ پیدا ہو جائے۔
اولاد کی پیدائش کے لیے پورے کا پورا مادہ تو ضروری نہیں ہے، چنانچہ ایک حدیث میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
\'\'مرد کی ساری منی سے تو بچہ نہیں بنتا۔
اللہ تعالیٰ جب کسی بچے کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں ہوتی۔
\'\' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3554 (1438)
ایسے حالات میں انسان کیا احتیاط کر سکتا ہے کہ عزل کرتے وقت ایک قطرہ منی بھی اندر نہ نکلنے پائے؟ w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6603   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7409  
7409. سیدنا ابو سیعد خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہیں غزوہ بنو مصطلق میں کچھ لونڈیاں بطور غنیمت ملیں۔ صحابہ کرام نے چاہا کہ ان سے ہم بستری کریں لیکن انہیں حمل نہ ٹھہرے، اس لیے انہوں نے نبی ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم عزل نہ بھی کرو تو کوئی قباحت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھ دیا ہے جو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ مجاہد نے قزعہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابو سعید ؓ سے سنا، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی جان جس کا پیدا ہونا مقدر ہے اللہ اسے ضرور پیدا کر کے رہے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7409]
حدیث حاشیہ:

عزل کے معنی ہیں:
بیوی سے صحبت کرتے وقت اندام نہانی سے باہر انزال کرنا۔
بعض حالات میں اس کی اجازت ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کے لیے اسے بنیاد قرار دینا نری حماقت ہے کیونکہ عزل، بیوی خاوند کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بعض اوقات اسے خفیہ طور پر زندہ درگورکرنا قراردیا ہے۔

مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان ہی سے اس عمل کی کراہت معلوم ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ اگرتم عزل نہ کرو تو زیادہ بہترہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق کے پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے وہ پیدا ہو کررہے گی۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544(1438)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرتم عزل کروگے تو حرج ہوگا یہ مطلب نہیں کہ عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر یہ مقصد ہوتا تو صاف کہہ دیا جاتا کہ عزل کر لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 381/9)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو وجود میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ وجود میں آکر رہے گا، خواہ عزل کیا جائے یا نہ کیا جائے اور جس کا پیدا کرنا مقدر نہیں وہ کسی صورت میں پیدا نہیں ہوگا۔
اگر اللہ تعالیٰ نے بیوی سے مباشرت کے نتیجے میں کسی بچے کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ ہو کر رہے گا، خواہ اس کے روکنے کے لیے کتنے ہی ذرائع ووسائل استعمال کر لیے جائیں۔
اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔
وہ اکیلا ہی خالق ومالک ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ اکیلا ہی خالق، موجد اور تصویر بنانے والا ہے۔
میاں بیوی کو اس میں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے والا ہے، اس میں لوگوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کا کوئی عمل دخل نہیں۔
وہی اسے عدم سے وجود میں لانے والا، پھر شکم مادر (ماں کے پیٹ)
میں اس کی صورت بنانے والا ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین اکھٹے ہو جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے نقشے میں سرمو فرق نہیں لا سکتے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 295/1) (فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ)

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فعل خلق، غیر مخلوق ہے جبکہ اس کانتیجہ مخلوق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار کے افعال اور اس کی صفات کے طفیل پناہ طلب کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا مروی ہے:
اےاللہ! میں تیری رضا کے طفیل تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔
اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضا جو اس کی صفت ہے، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے پناہ مانگی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا غیرمخلوق ہے کیونکہ اس کے طفیل پناہ طلب کی ہے۔
اگر یہ فعل مخلوق ہوتا تو اس کےذریعے سے پناہ نہ طلب کی جاتی کیونکہ مخلوق کے طفیل پناہ مانگنا جائز نہیں۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی غیر مخلوق ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 229/6)
ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث کے مطابق خالق کے معنی ہیں، مخلوق کو ازسرنو پیدا کرنے والا اور اشیاء کوعدم سے وجود میں لانے والا۔
اللہ تعالیٰ کی یہ ایک ایسی صفت ہے جس میں اور کوئی مخلوق شریک نہیں۔
(فتح الباري: 481/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7409