ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ) نے اپنے چچا سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی۔اور اسی طرح حدیث بیان کی، سوائے اس بات کےکہ انھوں نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں (انصار) نے کہا: ہم صبر کریں گے۔جس طرح یونس نے زہری سے روایت کی۔
امام صاحب ایک دوسرے استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں ”سنصبر“ کی جگہ ”نَصبِرُ“ ہے ہم صبر کریں گے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2438
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بعض دفعہ اپنے امیر یا بزرگ کے فعل کے اندر جو حکمت اور مصلحت ہوتی ہے انسان اپنی نوخیزی یا ناتجربہ کاری اور کم عقلی کی بنا پر سمجھ نہیں سکتا اس لیے وہ کام انسان کے نزدیک قابل اعتراض یا غیر مناسب ہوتا ہے لیکن جب اس کی حکمت و مصلحت بتا دی جاتی ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر ادھر ادھر تنقید یا طعن و تشنیع کی بجائے اگر براہ راست گفتگو کر لی جائے تو معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر امیر یا قابل احترام شخصیت کو بھی تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے اپنے عقیدت مندوں اور ساتھیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے بعض مواقع پر اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے لیے کسی کے شر سے بچنے کے لیے اسے کچھ دینا پڑتا ہے کس کو اسلام کی طرف راغب اور مائل کرنے کے لیے دینے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اس کے مسلمان ہونے سے اس کا بااثر خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو سکتا ہے کہ بعض دفعہ نئے نئے مسلمان ہونے والوں کو اسلام پر جمانے کے لیے کچھ دینا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ اسلام اور اہل اسلام کی بہتری اور مفاد کے لیے ہو گا۔ اپنے ذاتی اور شخصی یا گروہی مفاد کے لیے نہیں اس لیے مصارف زکاۃ میں بھی ﴿الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ کا مصرف اور مد رکھی گئی ہے۔