حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 141
´بدعت گمراہی ہے`
«. . . وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .»
”. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اما بعد» (یعنی خطبہ میں فرمایا کہ حمد وصلوۃ کے بعد تم لوگ اس بات کو جان لو) کہ سب باتوں سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب راستوں سے اچھا راستہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا راستہ ہے اور سب کاموں سے زیادہ برا کام وہ ہے جو دین میں نیا کام نکالا گیا ہو، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 141]
فقہ الحدیث
➊ تقریر سے پہلے (اور مسنون خطبے کے بعد) «اما بعد» کہنا سنت ہے۔
➋ حدیث رسول کی طرح کتاب اللہ (قرآن) کو حدیث کہنا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: سورۃ الزمر آیت: 23
➌ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر قسم کی بدعت گمراہی، باطل اور مردود ہے۔
➍ جو عمل سنت سے ثابت ہو اور عوام میں جاری نہ ہو، پھر اس ثابت شدہ عمل کو دوبارہ جاری کر دیا جائے تو لغوی اعتبار سے اسے بدعت کہا جا سکتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول «نعم البدعة هذه» یہ اچھی بدعت ہے۔ [صحيح بخاري: 2010] کا یہی مطلب ہے۔
لیکن جس عمل کا کتاب و سنت اور ادلۂ شرعیہ میں کوئی ثبوت ہی نہ ہو تو اسے بدعت حسنہ قرار دینا غلط ہے۔ شریعت میں بدعت حسنہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ (بعض) لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں۔“ [السنة للمروزي: 82 وسنده صحيح]
➎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«من وقر صاحب بدعة فقد أعان عليٰ هدم الإسلام»
”جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی۔“ [الشريعة للآجري ص962 ح 2040 وسنده صحيح]
ابوالفضل عباس بن یوسف الشکلی مقبول الروایہ راوی ہے۔ دیکھیے: [تاريخ الاسلام فى للذهبي 479/23] اور [الوافي بالوفيات 373/16]
➏ مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو ایک بدعتی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
”اس کے پاس ہرگز نہ بیٹھو۔“ [سنن الدارمي: 398 و سنده صحيح]
➐ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ [سنن الدارمي: 399 وسنده حسن، وقال الترمذي 2152: حسن صحیح غريب]
➑ ایک بدعتی نے امام ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے جواب دیا: آدھی بات بھی نہیں، اور انہوں نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ [سنن الدارمي: 404 وسنده صحيح، الشريعة الآجري ص963 ح2046 وسنده صحيح]
➒ مشہور ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ صرف اہل سنت کو حدیث پڑھاتے تھے، فرماتے ہیں:
«نحدث أهل السنة»
”ہم (صرف) اہل سنت کو حدیثیں سناتے ہیں۔“ [تاريخ ابي زرعة الدمشقي: 1208، وسنده صحيح]
➓ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں تہتر [73] فرقے ہو جائیں گے جن میں صرف ایک جنتی ہے اور باقی سارے فرقے جہنمی ہیں۔ اسے درج ذیل صحابہ کرام نے روایت کیا ہے:
① عوف بن مالک رضی اللہ عنہ [سنن ابن ماجه: 3992 وسنده حسن]
② معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 4597 وسنده حسن]
③ ابوامامہ رضی اللہ عنہ [المعجم الكبير للطبراني 8؍321 ح8035 وسنده حسن، السنن الكبريٰ للبيهقي 8؍188، وسنده حسن]
اس آخری روایت میں فرقہ ناجیہ السواد الاعظم کو قرار دیا گیا ہے اور حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں «الجماعة» کا لفظ ہے، ان سب سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعت حقہ ہے اور یہی السواد الاعظم ہے۔ نيز ديكهئے: [كتاب الشريعة الآجري ص14، 15، دوسرا نسخه ص17]
↰ خیرالقرون گزر جانے کے بعد شرالقرون میں بعض مبتدعین کا اپنے آپ کو سواد اعظم قرار دینا اسی طرح غلط ہے جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان بہت سے گمراہوں کے اکثریتی علاقے میں رہ رہا ہو اور اکثریتی لوگ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں۔
↰ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وتفترق أمتي عليٰ ثلاث وسبعين فرقة»
”اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔“ [سنن الترمذي: 2640 وقال: ”حديث حسن صحيح“ وسنده حسن وصححه ابن حبان: 1834، والحاكم 1؍128، عليٰ شرط مسلم ووافقه الذهبي!]
↰ یہ تینوں یا چاروں روایتیں اپنے مفہوم کے ساتھ صحیح لغیرہ ہیں بلکہ بعض علماء نے تہتر فرقوں والی حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني ص57 ح18]
↰ فرقوں والی بعض روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360 ھ) فرماتے ہیں:
«رحم الله عبدا حذر هٰذه الفرق وجانب البدع واتبع ولم يبتدع ولزم الأثر وطلب الطريق المستقيم واستعان بمولاه الكريم»
”اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ان فرقوں سے ڈرایا اور بدعات سے دوری اختیار کی، اس نے اتباع کی اور بدعات کی پیروی نہیں کی، اس نے آثار کو لازم پکڑا اور صراط مستقیم طلب کی اور اپنے مولیٰ کریم (اللہ) سے مدد مانگی۔“ [الشريعة ص18، دوسرا نسخه ص20 قبل ح30]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 141