حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 171
´اگر نفل نماز کے دوران میں نیند کا غلبہ ہو تو . . .`
«. . . 452- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا نعس أحدكم فى الصلاة فليرقد حتى يذهب عنه النوم، فإن أحدكم إذا صلى وهو ناعس لعله يذهب يستغفر فيسب نفسه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے تاکہ اس سے نیند کا اثر ختم ہو جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ استغفار کے بجائے اپنے آپ کو بددعائیں دینا شروع کر دے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 171]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 212، ومسلم 786، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اپنے آپ کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔
➋ نوافل میں اپنے آپ کو صرف اس وقت تک مشغول رکھنا چاہئے جب تک طبیعت ہشاش بشاش ہو۔ تاہم نیند توڑ کر اٹھنا اور شیطان سے جنگ کرتے ہوئے تہجد کی نماز پڑھنا فضیلت کا کام ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 86]
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رات کو جتنی اللہ چاہتا نماز پڑھتے اور رات کے آخری پہر میں اپنے گھر والوں کو نماز کے لئے اٹھا دیتے تھے۔ [الموطأ 1/119 ح258 وسنده صحيح]
➍ بےہوش، پاگل اور جس کی عقل زائل ہو اس پر نماز فرض نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ ہوش میں آ جائے یا صحیح و تندرست ہو جائے۔ نیز دیکھئے: [سورة النساء: 45]
➎ جو چیزیں انسان کو نماز سے مشغول کر دیتی ہیں، اپنے آپ کو ان چیزوں سے حتی الامکان دور رکھنا واجب ہے تاکہ اطمینان و سکون سے نماز پڑھ سکے۔
➏ واضح رہے کہ اس کا تعلق نفلی نماز سے ہے نہ کہ فرض نماز سے لہٰذا بعض سست اور غافل لوگوں کا اس حدیث کو فرض نماز سے کوتاہی پر بطور دلیل پیش کرنا مذموم حرکت ہے۔
➐ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن نیند سے ٹوٹ جاتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 452