اسود بن قیس نے شقیق بن عبہ سے، انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم یہ آیت ایک عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اسی طرح) پڑھتے رہے۔۔۔۔۔ (آگے) فضیل بن مرزوق کی (سابقہ) حدیث کی مانند ہے۔
امام مسلم فرماتے ہیں: یہی روایت اشجعی نے سفیان ثوری کے واسطے سے اسود بن قیس کی شقیق بن عقبہ سے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنائی، انہوں نے کہا، ہم ایک عرصہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے رہے، جیسا کہ فضیل بن مرزوق کی حدیث ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1429
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس آیت مبارکہ میں صلاۃ العصر کا لفظ بطور تفسیر تھا۔ اس لیے انھوں نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اس کو اپنے مصحف میں لکھوایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کے وقت اس کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بتایا اس لیے جب مصحف امام لکھوایا گیا۔ جس کےمطابق دوسرے مصحف تیار ہوتے تھے تو یہ لفظ نہیں لکھا گیا باقی رہا یہ مسئلہ کہ حدیث خبر واحد ہے اور قرآن مجید تواتر سے ثابت ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا قرآن ہونا جس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اسی سے اس کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے اب یہ قرآن ہے ہی نہیں کہ اس کے لیے تواتر شرط ہو اس آیت کے لیے متواتر شرط ہے جو قرآن میں موجود ہو اس لیے جنہوں نے اس کو قرآن سمجھا تھا انھوں نے اس تفسیر کو منسوخ بھی سمجھا اور جنہوں نے اس کو قرآن نہیں سمجھا بلکہ تفسیر سمجھا انھوں نے اپنے ذاتی مصحف میں اپنی یا دواشت کے لیے اس کو لکھا بہر حال تمام احادیث مذکورہ سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ صلوۃ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے اس لیے یہی صحیح اور راجح قول ہے اور اس کے علاوہ اقوال درست نہیں ہیں اگرچہ چونکہ نمازیں پانچ ہیں اس لیے ہر نماز کو درمیان میں رکھ کر اس کو درمیانی نماز کا نام دیا جا سکتا ہے اور دیا بھی گیا ہے حتی کہ عطف کو مغایرت کے لیے مان کر پانچ نمازوں کے سوا جمعہ کو بھی درمیانی نماز کا نام دیا گیا ہے اور قول کے لیے کوئی نہ کوئی سبب بیان کیا گیا ہے۔