صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر

صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
22. باب السَّلاَمِ لِلتَّحْلِيلِ مِنَ الصَّلاَةِ عِنْدَ فَرَاغِهَا وَكَيْفِيَّتِهِ:
22. باب: نماز ختم کرتے وقت سلام کیوں پھیرنا چاہئیے۔
Chapter: The salam to exit the prayer when one has finished and how it is done
حدیث نمبر: 1315
Save to word اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا ابو عامر العقدي ، حدثنا عبد الله بن جعفر ، عن إسماعيل بن محمد ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: كنت ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يسلم عن يمينه، وعن يساره، حتى ارى بياض خده ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، حَتَّى أَرَى بَيَاضَ خَدِّهِ ".
عامر بن سعد نے اپنے وال (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے دیکھا کرتا تھاٰحتی کہ میں آپ کے رخسار وں کی سفیدی دیکھتا تھا۔
حضرت عامر بن سعد رحمتہ اللہ علیہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دائیں اور اپنے بائیں سلام پھیرتے دیکھتا تھا، حتیٰ کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کی سفیدی دیکھتا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 582

   سنن النسائى الصغرى1317سعد بن مالكيسلم عن يمينه عن يساره
   سنن النسائى الصغرى1318سعد بن مالكيسلم عن يمينه عن يساره حتى يرى بياض خده
   صحيح مسلم1315سعد بن مالكيسلم عن يمينه عن يساره حتى أرى بياض خده
   سنن ابن ماجه915سعد بن مالكيسلم عن يمينه عن يساره
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1315 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1315  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سامنے سلام پھیرا جائے گا بعض دفعہ یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے۔
کیونکہ نماز سے تو انسان ایک ہی سلام سے نکل جاتا ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور سلف کےنزدیک نماز سے نکلنے کے لیے سلام پھیرنا فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی اور احناف کے نزدیک واجب ہے اگر نمازی تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد جان بوجھ کر نماز کے منافی کوئی کام کرے تو نماز ہو جائے گی لیکن سجدہ سہو کرنا پڑے گا۔
لیکن آخر میں اگر بلاقصد و ارادہ اگر کوئی کام نماز کے منافی ہو جائے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز باطل ہو گی۔
اور صاحبین کے نزدیک درست ہو گی۔
لیکن علامہ کرخی نے اس قول کی تردید کی ہے تفصیل کے لیے دیکھئے:
(شرح صحیح مسلم علامہ سعیدی:
ج 2 ص: 178۔
179)

اس کے لیے بلا دلیل یہ قاعدہ بنایا گیا ہے۔
کہ خبر واحد سے یہ وجوب ثابت ہوتا ہے فرضیت نہیں۔
دوسری دلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ضعیف روایت پیش کی جاتی ہے۔
تیسری دلیل ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز،
صحیح طریقہ سے نہ پڑھنے والے کو نماز کا طریقہ سکھانا ہے کہ اس میں سلام کا تذکرہ نہیں حالانکہ اس میں صرف ان امور کا تذکرہ ہے جہاں اس نے غلطی کی تھی۔
نماز کے تمام امور کا تذکرہ نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1315   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1318  
´سلام پھیرنے کا بیان۔`
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تھا کہ آپ اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھی جاتی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: عبداللہ بن جعفر مخرمی میں کوئی حرج نہیں یعنی قابل قبول راوی ہیں، اور علی بن مدینی کے والد عبداللہ بن جعفر بن نجیح، متروک الحدیث ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1318]
1318۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن جعفر مخرمی ہیں جو ثقہ ہیں۔ ایک دوسرے عبداللہ بن جعفر ہیں جو مشہور محدث اور نقاد حضرت علی بن مدینی کے والد محترم ہیں لیکن وہ اپنے کمزور حافظے کی وجہ سے علم حدیث میں قابل اعتبار نہیں۔ چونکہ اشتباہ کا خطرہ تھا، اس لیے امام صاحب نے وضاحت فرمائی۔ جزاہ اللہ خیرا۔
➋ اسلام دونوں جانب کہنا چاہیے۔ کثیر روایات اسی پر دال ہیں۔ لیکن نماز کے آخر میں صرف ایک طرف سلام کہنا بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طرف سلام کہنا بھی ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة: 628/1، حدیث: 316] جب ایک سلام کہنا ہو تو سامنے کی طرف منہ کر کے سلام کہا جائے، پھر چہرے کو دائیں جانب مائل کر لیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1318   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.