ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان نے مسلم بن ابی مریم سے حدیث سنائی، انھوں نے علی بن عبد الرحمان معادی سے روایت کی ئ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھی ...پھر سفیان نے مالک کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور (سفیان کے شاگرد ابن ابی عمر نے) یہ اضافہ کیا کہ سفیان نے کہا: یحییٰ بن سعید نے ہمیں یہ حدیث مسلم (بن ابی مریم) سے بیان کی تھی، پھر مسلم (بن ابی مریم) نے خود مجھے یہ حدیث سنائی۔
حضرت علی بن عبد الرحمٰن معاوی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلو میں نماز پڑھی پھر اوپر کے مفہوم والی حدیث بیان کی، سفیان کا قول ہے یہ روایت مسلم سے یحییٰ بن سعید نے سنائی تھی، پھر مجھے مسلم نے براہ راست (بلا واسطہ) سنائی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1312
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ فجر کی نماز کے سوا باقی نمازوں میں دو تشہد ہیں۔ ان میں بیٹھنے کی کیفیت کی بہترین صورت میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک دونوں سجدوں کے درمیان اور ہر تشہد میں اِفْتِرَاشْ یعنی دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پیر کو بچھا کر اس پر بیٹھنا افضل ہے۔ مالکیوں کے نزدیک ہر جگہ تَوَرُّکْ یعنی دائیں پیر کو کھڑا کر کے بائیں پیر کو پنڈلی اور ران کے درمیان سے نکال کر سرین پر بیٹھنا افضل ہے۔ شوافع، حنابلہ اور محدثین کے نزدیک سجدوں کے درمیان افتراش نیز شوافع اور محدثین کے نزدیک سلام والے تشہد میں تَوَرُّکْ ہے اور جس تشہد کے بعد سلام نہیں ہے۔ اس میں اِفْتِرَاشْ ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جن نمازوں میں دو تشہد ہیں۔ ان میں پہلے میں اِفْتِرَاشْ ہے اور دوسرے میں تَوَرُّک ہے اور جن نمازوں میں تشہد ایک ہے جیسے فجر، جمعہ اور عیدین اس میں اِفْتِرَاش ہے۔ 2۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تورک کی صورت میں دائیں پیر کو کھڑا کرنے کی بجائے بچھانے کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ عام روایات میں دائیں پاؤں کو کھڑا رکھنا آیا ہے۔ اس لیے قاضی عیاض نے اس میں یہ کہا ہے کہ یہاں بائیں کی جگہ غلطی سے دائیں کا تذکرہ ہو گیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کبھی بائیں پیر کے ساتھ دائیں کو بھی بچھایا جا سکتا ہے۔ 3۔ اس باب کی تمام احادیث سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ تشہد میں بیٹھتے ہی دائیں انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کیا جائے گا اور اس کو آخر تک کیا جائےگا۔ اس کو رکھنے کا تذکرہ کسی صحیح روایت میں نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لَا اِلٰه پر انگلی اٹھائے اور اِلَّا پر رکھ دے باقی ائمہ کے نزدیک اللہ پر انگلی اٹھائے۔ 4۔ اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اشارہ کے وقت ترپن کی شکل بنائے یعنی ساری انگلیوں کو بند کر کے صرف شہادت کی انگلی اٹھائے۔ لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھے اور آخری دونوں انگلیاں (خنصر اور بنصر) بند کر کے شہادت کی انگلی اٹھائے اور دونوں طریقے یہ صحیح ہیں۔ 5۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین کا نظریہ یہی بیان کیا ہے کہ وہ ان احادیث کے مطابق انگشت شہادت اٹھانے کے قائل ہیں اور متاخرین احناف جو اس کو مکروہ یا حرام قرار دیتے ہیں یا اس کو توڑنے کا حکم دیتے ہیں ان کی پر زور تردید کی ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 2/166 تا 177)