(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن،"سئل عن رجل اوصى وله اخ موسر، ايوص له؟ قال: نعم، وإن كان رب عشرين الفا، ثم قال: وإن كان رب مائة الف، فإن غناه لا يمنعه الحق".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ،"سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَى وَلَهُ أَخٌ مُوسِرٌ، أَيُوصِ لَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ كَانَ رَبَّ عِشْرِينَ أَلْفًا، ثُمَّ قَالَ: وَإِنْ كَانَ رَبَّ مِائَةِ أَلْفٍ، فَإِنَّ غِنَاهُ لَا يَمْنَعُهُ الْحَقَّ".
حمید سے مروی ہے، حسن رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کوئی آدمی اپنے مال دار بھائی کے لئے وصیت کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر سکتا ہے، چاہے وہ بھائی بیس ہزار کا مالک ہو، پھر کہا: یا ایک لاکھ کا مالک ہو، اس کی مال داری اس حق سے محروم نہ کرے گی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3295) معلوم ہوا کہ وارث کی مالداری کے باوجود کسی بھی غیر وارث شخص کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔ اور وہ وصیت کے اس مال کو مالدار ہونے کے باوجود لے سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3307]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 378 من طريق هشيم، قال: أخبرنا حميد الطويل بهذا الإسناد]