سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمن کی سرزمین پر حملہ آور ہوتے تو ربع یعنی چوتھائی مالِ غنیمت کا انعام دیتے، اور جب تمام لوگ لوٹتے (اور دوبارہ جنگ کی ضرورت واقع ہوتی) تو ایک تہائی مالِ غنیمت کا انعام دیتے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2517) جب مالِ غنیمت ہاتھ آوے تو اس میں پانچواں حصہ الله اور رسول کا ہے، وہ امام و سربراہ نکا لے اور باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں، اور امام کو اختیار ہے کہ ان باقی چار حصوں میں سے جتنا چاہے انعام کسی خاص شخص یا خاص جماعت کے لئے تجویز کرے۔ امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض فقہاء نے کہا کہ امام انعام کا وعدہ کرے تو خمس میں سے کرے جو اللہ اور رسول کا حصہ ہے۔ علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعد خمس نکالنے جب لڑائی شروع ہونے لگے اس وقت چوتھائی مالِ غنیمت ایک خاص فرقے کو جو کوئی بہادری کا کام کرتا انعام مقرر کرے، اور جنگ سے لوٹنے کے بعد پھر اگر کوئی دشمن سے لڑتا تو اس کو تہائی نفل دیتے، اس واسطے کہ اس نے دو بار محنت و مشقت برداشت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2525]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1561]، [ابن ماجه 2852]، [ابن حبان 4855]، [موارد الظمآن 1693]