(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا زكريا، عن عامر، قال: قال عبد الله بن مطيع، سمعت مطيعا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم........ فذكر نحوه. قال ابو محمد: فسروا ذلك: ان لا يقتل قرشي على الكفر يعني: لا يكون هذا ان يكفر قرشي بعد ذلك اليوم فاما في القود، فيقتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ، سَمِعْتُ مُطِيعًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ........ فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: فَسَّرُوا ذَلِكَ: أَنْ لَا يُقْتَلَ قُرَشِيٌّ عَلَى الْكُفْرِ يَعْنِي: لَا يَكُونُ هَذَا أَنْ يَكْفُرَ قُرَشِيٌّ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَأَمَّا فِي الْقَوَدِ، فَيُقْتَلُ.
سیدنا مطیع رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی مروی ہے ترجمہ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: مذکورہ بالا حدیث کی تفسیر میں علماء نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب قریشی مسلمان ہو جائیں گے اور کوئی بھی کفر پر نہیں مرے گا، یعنی آج کے بعد سے کوئی قریشی کافر نہ رہے گا اور جرم کرے تو قتل کیا جائے گا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2423) امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث «لَا يُقْتَلَ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هٰذَا الْيَوْمِ» کا مطلب یہ ہے کہ قریش مسلمان ہو جائیں گے اور ان میں سے کوئی اسلام سے نہ پھرے گا «كماقال الدارمي رحمه اللّٰه» اور کفر کی وجہ سے باندھ کر نہ مارا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن خطل ایک کافر تھا، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے بہت رنج دیا، مسلمان ہو کر مرتد ہوا، فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرلگی کہ وہ کعبہ کے پردوں میں چھپا بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پکڑ لاؤ۔ “ لوگ اسے مشکیں باندھ کر لائے اور وہ قتل کر دیا گیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی باندھ کر نہ مارا جائے گا۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2432]» اس روایت کی سند و تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔