(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن سهل بن سعد، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجرة ومعه مدرى يحك به راسه، اطلع إليه رجل، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لو اعلم انك تنظر لقمت حتى اطعن به عينيك. إنما جعل الإذن من اجل النظر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُجْرَةٍ وَمَعَهُ مِدْرى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، اطَّلَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ تَنْظُرُ لَقُمْتُ حَتَّى أَطْعَنَ بِهِ عَيْنَيْكَ. إِنَّمَا جُعِلَ الْإِذْنُ مِنْ أَجْلِ النَّظَرِ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں لوہے کے کنگھے سے بال جھاڑ رہے تھے کہ ایک صحابی اندر جھانکنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے علم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں کھڑا ہو کر اس کنگھے کو تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا، اجازت لینے کا نظر ہی کی وجہ سے حکم دیا گیا ہے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2420 سے 2422) جب بغیر اجازت دیکھ لیا تو پھر اذن و اجازت کی کیا ضرورت رہی۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا کچھ پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس گھر والے کو کچھ تاوان نہیں دینا ہوگا، بلا اجازت تاک جھانک کی یہ بہت بھیانک سزا ہے، لہٰذا کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالنا یا داخل ہونا منع ہے، اس لئے کسی بھی غیر کے گھر میں اجازت لے کر، سلام کر کے داخل ہونا چاہئے یہ اسلامی آداب میں سے ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ......﴾[النور: 27] » ترجمہ: ”اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو، اور وہاں رہنے والوں کو سلام کرو۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2430]» اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه