(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى هو ابن سعيد، ان عمرة اخبرته، ان حبيبة بنت سهل تزوجها ثابت بن قيس بن شماس، فذكرت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان هم ان يتزوجها. وكانت جارة له، وان ثابتا ضربها، فاصبحت على باب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغلس، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج، فراى إنسانا فقال:"من هذا؟"قالت: انا حبيبة بنت سهل، فقال:"ما شانك؟"، قالت: لا انا ولا ثابت، فاتى ثابت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله: "خذ منها وخل سبيلها"، فقالت: يا رسول الله، عندي كل شيء اعطانيه فاخذ منها، وقعدت عند اهلها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عَمْرَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ تَزَوَّجَهَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَذَكَرَتْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هَمَّ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا. وَكَانَتْ جَارَةً لَهُ، وَأَنَّ ثَابِتًا ضَرَبَهَا، فَأَصْبَحَتْ عَلَى بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَلَسِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَرَأَى إِنْسَانًا فَقَالَ:"مَنْ هَذَا؟"قَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، فَقَالَ:"مَا شَأْنُكِ؟"، قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتٌ، فَأَتَى ثَابِتٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: "خُذْ مِنْهَا وَخَلِّ سَبِيلَهَا"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي كُلُّ شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ فَأَخَذَ مِنْهَا، وَقَعَدَتْ عِنْدَ أَهْلِهَا.
عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ سیدہ حبیبہ بنت سہل سے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما نے شادی کی تھی۔ سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ رکھتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑوسن تھیں ( «انفرد به الدارمي») سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا تو وہ صبح کو اندھیرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرآئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آدمی کی پرچھائی (سایہ) دیکھا، فرمایا: ”کون ہے؟“ انہوں نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نہیں یا ثابت نہیں (یعنی میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی)، پھر جب سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے اپنا مال لے لو اور اس کو چھوڑ دو“، سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے جو کچھ بھی دیا سب میرے پاس محفوظ ہے۔ چنانچہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال لے لیا اور اس کو چھوڑ دیا، اور سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے میکے میں جا کر بیٹھ گئیں (یعنی شوہر سے خلع لے لیا)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2307) مذکورہ بالا روایت میں خلع کا ذکر ہے یعنی عورت پر اگر ظلم ہو رہا ہے تو وہ قاضی یا حاکم کے پاس جا کر اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے، اور مرد کو یہ مطالبہ پورا کرنا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے، اس کے بدلے میں اس نے جو کچھ بھی زر، زیور، زمین عورت کو دی ہو وہ واپس مل جائے گی، زیادہ لینا مکروہ ہے، اور قاضی دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا دے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت اور سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جدائی کرا دی، اور خلع کے بعد ایک مہینے کی عدت عورت پر ہے، یہ اسلام کا وہ پیارا نظامِ عدل ہے جو میاں بیوی کو زبردستی سے روکتا اور ساتھ نبھانے پر مجبور نہیں کرتا ہے، اوّل تو عورت کی بغیر اجازت نکاح ہو ہی نہیں سکتا، دوسرے اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ اس کو اسلام میں لفظ خلع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔