(حديث مرفوع) حدثنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: طلق رفاعة رجل من بني قريظة امراته فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، والله إن معه إلا مثل هدبتي هذه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك او قال تذوقي عسيلته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَة، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: طَلَّقَ رِفَاعَة رَجُلٌ مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ امْرَأَتَهُ فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَدَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنْ مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَتِي هَذِهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ أَوْ قَالَ تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدنا رفاعہ رضی اللہ عنہ جو بنی قریظہ کے فرد تھے، انہوں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی، اس کے بعد اس سے سیدنا عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی، پھر وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی طرح ہے (یعنی نامرد ہیں جماع نہیں کر سکتے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ عبدالرحمٰن تمہارا مزہ نہ چکھ لیں“ یا یہ کہا کہ ”تم اس کا مزہ نہ چکھ لو۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2303 سے 2305) جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اب ضروری ہے کہ وہ عورت دوسرے مرد سے بلا شرط نکاح کرے اور اس سے جماع کرائے، اس کے بعد یہ دوسرا شوہر حلالہ کی نیت و شرط سے نکاح و طلاق نہ دے ورنہ یہ نکاح ناجائز ہوگا، اور ایسا کرنے والا اور جس کے لئے ایسا کیا جائے دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ملعون ہیں، بہرحال مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ عورت پہلے خاوند سے طلاقِ ثلاثہ کے بعد دوبارہ شادی کر سکتی ہے جب کہ دوسرے شوہر نے از خود اس کو طلاق دیدی ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2314]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه