مسروق رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے طلاق کا اختیار دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن گیا؟
وضاحت: (تشریح حدیث 2305) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو اختیار ہے کہ چاہو تو میرے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے میکے چلی جاؤ، تو اگر وہ شوہر کے ساتھ رہ جائے تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل سورۂ احزاب کی آیت: « ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا .....﴾[الأحزاب: 28] » کے ضمن میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2315]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5262]، [مسلم 1477]، [ترمذي 1179]، [نسائي 3203]، [أبويعلی 4317]، [ابن حبان 4267]، [الحميدي 236]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه