(حديث موقوف) حدثنا حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله: ان اليهود، قالوا للمسلمين: "من اتى امراته وهي مدبرة، جاء ولده احول. فانزل الله تعالى: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِلْمُسْلِمِينَ: "مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ وَهِيَ مُدْبِرَةٌ، جَاءَ وَلَدُهُ أَحْوَلَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہود نے مسلمانوں سے کہا: جو آدمی اپنی بیوی کے پیچھے سے ہم بستری کرے گا تو اس کا بچہ بھینگا پیدا ہو گا، چنانچہ الله تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی: «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ ......﴾»[البقره: 222/2] یعنی”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2250) آیتِ مذکورہ میں « ﴿أَنَّى شِئْتُمْ﴾ » سے مراد یہ کہ جس طرح چاہو لٹا کر، بٹھا کر، کھڑا کر کے اپنی بیوی سے جماع کر سکتے ہو، لفظ «حَرْثَكُمْ» بتلا رہا ہے کہ اس سے وطی فی الدبر مراد نہیں کیونکہ دبر کھیتی نہیں۔ یہ آیت یہودیوں کی تردید میں نازل ہوئی جو کہا کرتے تھے کہ عورت سے اگر شرم گاہ میں پیچھے سے جماع کیا جائے تو لڑکا بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ دبر میں جماع کرنا حرام ہے۔ ترمذی و ابن ماجہ (1923) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں کرے گا جو کسی مرد یا عورت سے دبر میں جماع کرے۔ یہ فعل بہت گندا اور خلافِ انسانیت ہے، ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے، قومِ لوط نے ایسا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا، پتھر برسائے اور انہیں تہ و بالا و نیست و نابود کر دیا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس فعلِ بد سے بچائے، آمین۔ آج کی دنیا میں بھی ایسا کرنے والوں پر بڑی بیماریوں کے بھیانک عذاب آ رہے ہیں، ایڈز کی بیماری کا اصل سبب یہ ہی اغلام بازی ہے۔ اسلام نے اس طوفان کی پیش بندی کی ہے، کاش لوگ اسے سمجھیں اور عمل کریں۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2260]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4528]، [مسلم 3521]، [أبوداؤد 2163]، [ترمذي 2978]، [ابن ماجه 1925، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه