سیدہ جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا کہ دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے سے منع کر دوں، لیکن مجھے یاد آیا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولادوں کو ضرر نہیں پہنچتا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «غيله» سے مراد یہ ہے کہ عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس سے جماع کیا جائے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2253) عربوں کا یہ خیال تھا کہ بچے کی ماں جب بچے کو دودھ پلاتی ہو تو اس سے صحبت نہیں کرنی چاہے، اس سے لڑکا ضعیف و نحیف ہو جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے، البتہ اگر حالتِ رضاعت میں حمل ٹھہر جائے تو بچے کی دو سال کی رضاعت پوری نہیں ہوتی اس لئے بچہ پر ضرر پڑتا ہے، اور جیسا کہ معلوم و معروف ہے شیر خوار بچے کے لئے ماں کے دودھ سے زیادہ تقویت دینے والی اور نشو و نما میں اہم چیز کوئی نہیں۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ رضاعت میں دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سبحان اللہ! اسلامی شریعت میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کا حکم بیان نہ کر دیا گیا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2263]» اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1442]، [أبوداؤد 3882]، [ترمذي 2076]، [نسائي 3326]، [ابن ماجه 2011]، [ابن حبان 4196]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الرضاع