سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
نکاح کے مسائل
28. باب بِنَاءِ الرَّجُلِ بِأَهْلِهِ في شَوَّالٍ:
28. شب زفاف شوال کے مہینے میں ہونی چاہئیے
حدیث نمبر: 2248
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن إسماعيل بن امية، عن عبد الله بن عروة، عن عروة، عن عائشة، قالت: "تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم في شوال، وادخلت عليه في شوال، فاي نسائه كان احظى عنده مني؟"قالت:"وكانت تستحب ان تدخل على النساء في شوال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي؟"قَالَت:"وَكَانَتْ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ عَلَى النِّسَاءِ فِي شَوَّالٍ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں مجھ سے نکاح کیا اور شوال میں ہی مجھ سے صحبت کی، پھر کون سی بیوی مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب تھی؟ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ ان کی رشتہ دار عورتوں کی شوال میں رخصتی ہو۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2247)
شوال کا مہینہ عید کی خوشی کا مہینہ ہے اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، اور دورِ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس جانتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور کو مٹانے کے لئے شوال میں نکاح کیا اور شبِ زفاف بھی منائی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس باطل تصور کے بطلان کے لئے کافی ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مہینہ میں نکاح اور صحبت کی، اور میں ہی سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی تھی اور سب سے زیادہ محظوظ بھی، شادی گو ہر مہینے اور کسی بھی دن و تاریخ میں کی جا سکتی ہے مگر جو چیز کافروں فاسقوں کے اوہام و خیالات، عورتوں کی جہالت، شرعی دلیل کے بغیر رائج ہو، عوام اس کو منحوس سمجھیں، اسی مہینہ میں نکاح اور خوشی کرنی چاہیے تاکہ عوام کے دل سے یہ بے اصل بات نکل جائے، شرع کی رو سے شوال کا مہینہ، اسی طرح محرم یا صفر کا مہینہ کوئی بھی منحوس نہیں، بے کھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہیے، اور تیرہ تیزی کا تصور و عقیدہ بالکل لغو جاہل عورتوں کی ایجاد ہے۔
(وحیدی بتصرف)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2257]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1423]، [ترمذي 1093]، [نسائي 3236]، [ابن ماجه 1990]، [أحمد 206/6، 54]، [ابن حبان 4058]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.