(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن ابي زياد الطحان، قال: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال لرجل رآه يشرب قائما:"قئ". قال: لم؟ قال:"اتحب ان تشرب مع الهر؟"قال: لا، قال:"فقد شرب معك شر منه، الشيطان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي زِيَادٍ الطَّحَّانِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِرَجُلٍ رَآهُ يَشْرَبُ قَائِمًا:"قِئْ". قَالَ: لِمَ؟ قَالَ:"أَتُحِبُّ أَنْ تَشْرَبَ مَعَ الْهِرِّ؟"قَالَ: لَا، قَالَ:"فَقَدْ شَرِبَ مَعَكَ شَرٌّ مِنْهُ، الشَّيْطَانُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا تو فرمایا: ”قے کر دو“، اس نے کہا: کیوں؟ فرمایا: ”کیا تم پسند کرو گے کہ بلی کے ساتھ پانی پیو؟“ عرض کیا: نہیں، فرمایا: ”تمہارے ساتھ بلی سے زیادہ برے شیطان نے پانی پیا ہے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2163 سے 2165) اس حدیث میں ہے کہ اس شخص کے ساتھ جو کھڑے ہو کر پانی پی رہا تھا، شیطان نے پانی پیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچشمِ خود ایسا دیکھا تب ہی فرمایا کہ الٹی کر دو، جس طرح تم کسی جانور کیساتھ پانی نہیں پی سکتے تو شیطان لعین کے ساتھ کس طرح پینا پسند کروگے۔ اس میں کھڑے ہوکر پانی پینے پر سخت وعید ہے۔ پچھلے باب میں صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر پانی پینا درست ہے اور اللہ کے نبی ہادی برحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر زمزم کا پانی بھی پیا، اور یہاں اس باب کی احادیث سے کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت معلوم ہوئی، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نہی کو تنزیہ پر محمول کیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اباحت پر محمول کیا جائے، یعنی کبھی کبھار کھڑے ہوکر پی لیا تو کوئی حرج نہیں، بیٹھ کر پینا افضل ہے، ایک ساتھی نے کسی ڈاکٹر کا قول بیان کیا کہ جو لوگ بیٹھ کر پانی پیتے ہیں انہیں سلس البول (پیشاب ٹپکنے) کی بیماری کبھی نہ ہوگی۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2174]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 301/2]، [طحاوي فى مشكل الآثار 19/3] و [ابن ابي شيبه 203/8]۔ نیز دیکھئے: [فتح الباري 8/10]