(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو يعني: ابن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: بلغ عمر ان سمرة باع خمرا، فقال: قاتل الله سمرة، اما علم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لعن الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم فجملوها، فباعوها". قال سفيان: جملوها: اذابوها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي: ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، فَقَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، أَمَا عَلِمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا". قَالَ سُفْيَانُ: جَمَلُوهَا: أَذَابُوهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر لگی کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی ہے تو انہوں نے کہا: الله تعالیٰ سمرہ کو برباد کرے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ یہود پر لعنت کرے، چربی ان پر حرام کی گئی لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کر دیا۔“ سفیان نے کہا: «جملوها» کا معنی ہے «اذابوها» ۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2139 سے 2141) علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے: اس کا مطلب ہے انہوں نے اس چربی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی، اس سے معلوم ہوا کہ جیسے شراب حرام ہے ویسے ہی اس کی قیمت لینا اور سوداگری کرنا بھی حرام ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں بعض مسلمان تاجر اپنی دکانوں میں شراب بھی رکھتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ شراب بیچنے میں اتنا گناہ نہیں ہے جتنا اس کے پینے میں، حالانکہ حدیث کی رو سے وہ سب برابر ہیں اور سب پر لعنت آئی ہے، اور شراب کا پیسہ حرام ہے، اس کا کھانا اور کھلا نا دونوں جائز نہیں، اسی طرح سود کا پیسہ، اور جو سوداگر شراب اور سود کا بیوپار کرتا ہو اس کی دعوت میں جانا تقویٰ کے خلاف ہے۔ بخاری وغیرہ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی تھی، عام آدمی کا ذکر ہے، بہرحال اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت کا اندازہ لگتا ہے کہ خلافِ شرع بات انہیں قطعاً برداشت نہیں تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ محرماتِ منصوصہ کو حیلہ سازی سے استعمال میں لانا یہود کا فعل ہے جن پر الله تعالیٰ کی لعنت ہے۔ لہٰذا ایسے افعال سے بچنا چاہیے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2150]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2223]، [مسلم 1582]، [ابن ماجه 3383]، [أبويعلی 23468]، [ابن حبان 4942]