سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: حماد (بن سلمہ) کے علاوہ رواۃ سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جگہ بطریق ثمامہ عن سیدنا انس رضی اللہ عنہ مروی ہے، دیگر رواۃ نے بطریق قعقاع عن سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے اور پہلی حدیث جو عبید بن حنین سے مروی ہے وہ سب سے زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2076 سے 2078) مذکورہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بے خون کے حشرات اگر کھانے پانی میں گر جائیں تو وہ ناپاک نہیں ہوتے، مکھی مچھر کو نکال کر کھا پی سکتے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ مکھی جب گرتی ہے تو اپنے اس بازو یا پر کے بل گرتی ہے جس میں بیماری ہے، سو تم پوری مکھی کو اس میں ڈبو دو۔ بہت سی اشیاء اللہ پاک نے اس کثرت سے پیدا کی ہیں جن کی افزائشِ نسل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، ایسی جملہ اشیاء نسلِ انسانی کی صحت کے لئے مضر ہیں۔ دوسرا پہلو ان میں نفع کا بھی ہے، ان میں سے ایک مکھی بھی ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی بالکل حق اور مبنی بر صداقت ہے جو صادق المصدوق ہیں، اس میں مکھی کے ضرر کو دفع کرنے کے لئے علاج بالضد بتلایا گیا ہے، موجودہ فنِ حکمت (طب) میں علاج بالضد کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔ پس «صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»(کے کہنے کے سوا چارہ نہیں)۔ (راز رحمہ اللہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه ثمامة بن عبد الله لم يدرك أبا هريرة. أخرجه أحمد 340/ 2 من طريق يونس، [مكتبه الشامله نمبر: 2082]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ ثمامہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا، لیکن حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ مزید حوالہ کے لئے دیکھئے: [بخاري 5782]، [أبوداؤد 3844]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه ثمامة بن عبد الله لم يدرك أبا هريرة. أخرجه أحمد 340/ 2 من طريق يونس