(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن القاسم الاسدي، حدثنا ثور، عن خالد بن معدان، عن ابي امامة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اكل او شرب، قال: "الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، غير مكفور، ولا مودع، ولا مستغنى عن ربنا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا ثَوْرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ، قَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفُورٍ، وَلَا مُوَدَّعٍ، وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْ رَبِّنَا".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے پینے سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ غَيْرَ مَكْفُوْرٍ وَّلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًي (عَنْهُ) رَبَّنَا» یعنی ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ایسی تعریف جو بہت پاکیزہ و برکت والی ہیں، ہم اس کھانے کا شکر ادا نہیں کر سکتے، یہ ہمیشہ کے لئے رخصت نہ ہو جائے اور ہم اس سے مستغنیٰ نہیں رہ سکتے (یعنی بغیر کھائے نہیں رہ سکتے)، اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول فرما۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2061) کھانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد دعائیں منقول ہیں جن میں سے ایک دعا یہ ہے جو اوپر مذکور ہے، اسی طرح ایک اور دعا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَ وَسَقٰي وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجَا.» ترجمہ: ”تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے کھلایا، پلایا اور کھانا ہضم کرنے کی طاقت بخشی، اور اس کے فضلے کے نکلنے کا راستہ بنایا۔ “ اس کے علاوہ ہے جو بھی دعا صحیح سند سے ثابت ہو، اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر دعا ضرور کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾[إبراهيم: 7] » ترجمہ: ”اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں زیادہ سے زیادہ نواز دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو (جان لو) میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔ “ «أعاذنا اللّٰه منه» ۔
تخریج الحدیث: «محمد بن القاسم الأسدي كذبوه ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2066]» اس حدیث کی سند میں محمد بن القاسم کو محدثین نے کذاب کہا ہے، لیکن یہ حدیث صحیح سند سے بخاری وغیرہ میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5458]، [أبوداؤد 3849]، [ترمذي 3456]، [ابن ماجه 3284]، [ابن حبان 5217]، [بيهقي فى الشعب 6038، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن القاسم الأسدي كذبوه ولكن الحديث صحيح