(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن موسى، حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد، عن هشام، عن حفصة، عن ام عطية، قالت: "امرنا بابي هو ان نخرج يوم الفطر، ويوم النحر العواتق وذوات الخدور، فاما الحيض، فإنهن يعتزلن الصف، ويشهدن الخير ودعوة المسلمين. قال: قلت: يا رسول الله، فإن لم يكن لإحداهن الجلباب؟ قال:"تلبسها اختها من جلبابها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "أَمَرَنَا بِأَبِي هُوَ أَنْ نُخْرِجَ يَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ النَّحْرِ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ، فَإِنَّهُنَّ يَعْتَزِلْنَ الصَّفَّ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِإِحْدَاهُنَّ الْجِلْبَابُ؟ قَالَ:"تُلْبِسُهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے باپ ان پر فدا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ”ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں جوان کنواری لڑکیوں اور پردے والیوں کو بھی ساتھ لے جائیں اور حیض والی عورتیں (بھی عیدگاہ آئیں لیکن) صف سے دور رہیں اور اچھے عمل (یعنی خطبہ سننے) و مسلمانوں کی دعاؤں میں شامل رہیں۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کسی کے پاس پردے کی چادر نہ ہو تو؟ فرمایا: ”اس کی بہن اپنی چادر اس کو اوڑھا دے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1647) اس حدیث سے عورتوں کے عیدین میں نماز کے لئے جانے کی تاکید ثابت ہوئی، جوان، بوڑھی حتیٰ کہ حیض کی حالت میں بھی، اور وہ غریب عورتیں بھی جن کے پاس اوڑھنی، چادر یا شرعی برقعہ نہ ہو وہ بھی عیدگاہ جائیں اور نماز و دعا اور تکبیرات میں شریک ہوں، حائضہ عورت صرف نماز میں شریک نہ ہوگی، یہ ہی سنّت ہے اور قیامت تک یہ حکم جاری ہے ان شرطوں کے ساتھ کہ عورت پردے کے ساتھ گھر سے نکلے اور زیب و زینت ظاہر نہ کرے اور عطر و خوشبو اور سینٹ وغیرہ استعمال نہ کرے۔ تمام ازواجِ مطہرات، مہاجرین و انصار کی بیویاں، مائیں اور بیٹیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قرونِ اولیٰ مفضلہ میں ہمیشہ عیدگاہ جاتی رہی ہیں، یہ کہنا کہ یہ حکم صرف رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک تھا سراسر ہٹ دھرمی ہے، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ و فساد کو دیکھتے تو عورتوں کو منع فرما دیتے بھی دلیل نہیں، کیونکہ خود وہ ہمیشہ عیدگاہ جاتی رہیں، حتیٰ کہ بصرہ میں بھی جنگِ جمل کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے گئیں، پھر یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال ہے جو صریح قولِ پیغمبر کے خلاف ہونے کے سبب قابلِ قبول نہیں، حیرت ان لوگوں پر ہے جو بازاروں، عرس، گانے، مشاعرے اور قوالیوں میں اپنی بیگمات کو جانے سے نہیں روکتے لیکن نماز، خطبہ اور دعا سے روکنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور بے جا تعصب اور ہٹ دھرمی سے دور رکھے۔ آمین۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1650]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 351]، [مسلم 890]، [ترمذي 540]، [ابن ماجه 1307]، [ابن خزيمه 1466، وغيرهم]