(حديث موقوف) حدثنا عفان، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت عاصم بن ضمرة، قال: سمعت عليا، يقول:"إن الوتر ليس بحتم كالصلاة، ولكنه سنة، فلا تدعوه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ:"إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَالصَّلَاةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ، فَلَا تَدَعُوهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وتر (فرض) نماز کی طرح واجب نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اور اسے چھوڑو نہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1617) ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ فرض نمازیں صرف پانچ ہیں، ان کے علاوہ سب سنن و نوافل ہیں، اور فرض نماز کی طرح وتر یا کوئی اور نماز واجب نہیں جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، لیکن وتر کی نماز کو چھوڑنا نہیں چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں کبھی وتر کو چھوڑا نہیں ہے، پس پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ ہمیشہ وتر کی ادائیگی پر مداومت کی جائے، اگر اخیر رات میں ہو تو افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر آخر اللیل ہی میں پڑھا ہے، اور اگر عشاء کے بعد پڑھ لیں تو بھی جائز ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى علي، [مكتبه الشامله نمبر: 1620]» یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف اور صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1416]، [ترمذي 453]، [نسائي 1676]، [أبويعلی 317]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى علي