(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى بن سعيد الانصاري، ان محمد بن يحيى بن حبان اخبره، ان ابن محيريز القرشي ثم الجمحي اخبره وكان يسكن بالشام، وكان ادرك معاوية، ان المخدجي رجل من بني كنانة اخبره، ان رجلا من الشام، وكانت له صحبة، يكنى ابا محمد، اخبره: ان الوتر واجب، فراح المخدجي إلى عبادة بن الصامت فذكر ذلك له. فقال عبادة: كذب ابو محمد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "خمس صلوات كتبهن الله على العباد، من اتى بهن لم يضيع من حقهن شيئا استخفافا بحقهن، كان له عند الله عهد ان يدخله الجنة، ومن لم يات بهن، جاء وليس له عند الله عهد إن شاء عذبه، وإن شاء، ادخله الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ مُحَيْرِيزٍ الْقُرَشِيَّ ثُمَّ الْجُمَحِيَّ أَخْبَرَهُ وَكَانَ يَسْكُنُ بِالشَّامِ، وَكَانَ أَدْرَكَ مُعَاوِيَةَ، أَنَّ الْمُخْدَجِيَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الشَّامِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَرَاحَ الْمُخْدَجِيُّ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ. فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ أَتَى بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْ حَقِّهِنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ، جَاءَ وَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ، أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ".
ابن محیریز قرشی جمحی نے جو کہ ملک شام میں رہتے تھے، انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا۔ انہوں نے خبر دی کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی مخدجی نے انہیں بتایا کہ ملک شام میں ایک شخص جن کی کنیت ابومحمد تھی اور جو صحابی تھے، انہوں نے کہا کہ وتر واجب ہے، مخدجی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہ بات ان سے ذکر کی تو سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے جھوٹ کہا، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”پانچ نمازیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا، جو شخص ان نمازوں کو لے کر آئے گا اس حال میں کہ ان کا پورا حق ادا کیا ہو، کسی قسم کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو، تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر دے، اور جو شخص ان نمازوں کو نہیں لے کر آیا (یعنی اہمیت نہ سمجھتے ہوئے نمازوں کو ترک کیا) تو الله تعالیٰ کا کوئی عہد و قرار نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اس کو جنت میں داخل کر دے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1615) یعنی تارک صلاة تحت مشيۃ الله تعالیٰ ہے، اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو عذاب میں مبتلا کر دے، مطلب یہ کہ وہ بڑے خطرے میں ہے، حدیث صحیح میں ہے: جو جان بوجھ کر نماز ترک کر دے اس نے کفر کیا، اور کافر جنّت میں نہیں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1618]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1420]، [نسائي 460]، [ابن ماجه 1401]، [الطيالسي 254]