سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
وضو اور طہارت کے مسائل
114. باب مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ في دُبُرِهَا:
114. جو آدمی اپنی بیوی کے دبر میں جماع کرے اس (کے جرم) کا بیان
حدیث نمبر: 1170
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن عثمان بن الاسود، عن مجاهد، قال: "من اتى امراته في دبرها فهو من المراة مثله من الرجل، ثم تلا: ويسالونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن فإذا تطهرن فاتوهن من حيث امركم الله سورة البقرة آية 222، ان تعتزلوهن في المحيض: الفرج، ثم تلا: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 قائمة، وقاعدة، ومقبلة، ومدبرة في الفرج".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: "مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَهُوَ مِنْ الْمَرْأَةِ مِثْلُهُ مِنْ الرَّجُلِ، ثُمَّ تَلَا: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 222، أَنْ تَعْتَزِلُوهُنَّ فِي الْمَحِيضِ: الْفَرْجَ، ثُمَّ تَلَا: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 قَائِمَةً، وَقَاعِدَةً، وَمُقْبِلَةً، وَمُدْبِرَةً فِي الْفَرْجِ".
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: جو آدمی اپنی بیوی کے دبر میں جماع کرے تو یہ مرد سے جماع کے مترادف (یعنی اغلام) ہے، استشہاد میں آیت پڑھی: اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، سو حالتِ حیض میں (اپنی) عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ، یعنی جماع کرو جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جماع کرنے کی اجازت دی ہے۔ [البقره 222/2] اس میں وضاحت ہے کہ حالت حیض میں عورتوں سے یعنی فرج سے دور رہو، پھر انہوں نے سورہ بقرہ کی یہ آیت پڑھی: تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اور جہاں سے چاہو اپنی کھیتیوں میں آؤ مطلب بتایا کہ کھڑے سے بیٹھے سے چت لٹا کر یا اوندھی (پیٹ کے بل لٹا کر)، جس طرح چاہو صرف فرج میں (شرم گاہ جہاں سے حیض آتا ہے صرف وہیں) جماع کرو۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1169)
اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف نے بہت مفید حاشیہ لکھا ہے جو مختصر بھی ہے اور ان مسائل کا مدلل خلاصہ بھی ہے، افادۂ عام کے لئے کچھ تصرف کے ساتھ اور مولانا حفظہ اللہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں ذکر کیا جا تا ہے۔
بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایامِ ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے، اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہا جا تا ہے جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔
حیض کے ایام میں عورت سے نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، ہاں ان کی قضاء بعد میں ضروری ہے، مرد کے لئے صرف ہم بستری منع ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے، اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کر سکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ کرام نے اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں (حالتِ حیض میں) جماع کرنے سے روکا گیا ہے۔
علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع ہے (ابن کثیر وغیرہ) «‏‏‏‏ ﴿فَإِذَا تَطَهَّرْنَ﴾ » ‏‏‏‏ جب وہ پاک ہو جائیں اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں، ایک خون بند ہو جائے (یعنی غسل کئے بغیر بھی پاک ہیں) مرد کے لئے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے، دوسرے معنی ہے خون بند ہونے کے بعد غسل کر کے پاک ہو جائیں، اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کرے اس سے مباشرت حرام رہے گی۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابلِ عمل ہیں۔
« ﴿فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ ...﴾ » ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تم کو اجازت دی ہے۔
یعنی خاص شرم گاہ سے جماع کرنے کی کیونکہ حالتِ حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا، اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب اسی (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی، اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کر دی گئی ہے۔
یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو (مدبرة) پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، اس کی تردید میں کہا جارہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو جائز ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو (یعنی جہاں سے خون آتا اور بچہ پیدا ہوتا ہے)۔
بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آ جاتی ہے لہٰذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے، لیکن یہ بالکل غلط ہے، جب قرآن نے عورت کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جارہا ہے۔
اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی (موضع ولد) صرف فرج ہے نہ کہ د بر، بہر حال یہ غیر فطری فعل ہے اسے حدیث میں لواطت صغریٰ اور ایسے شخص کو جو اپنی عورت کے دبر کو استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے۔
(بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1175]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 387/2] و [ابن أبى شيبه 232/4]، امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو [در منشور 265/1] کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.