حدثنا فروة، واحمد بن إشكاب، قالا: حدثنا القاسم بن مالك المزني، عن عاصم بن كليب، عن ابي بردة قال: دخلت على ابي موسى، وهو في بيت ابنته ام الفضل بن العباس، فعطست فلم يشمتني، وعطست فشمتها، فاخبرت امي، فلما اتاها وقعت به وقالت: عطس ابني فلم تشمته، وعطست فشمتها، فقال لها: إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا عطس احدكم فحمد الله فشمتوه، وإن لم يحمد الله فلا تشمتوه“، وإن ابنك عطس فلم يحمد الله، فلم اشمته، وعطست فحمدت الله فشمتها، فقالت: احسنت.حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَهُوَ فِي بَيْتِ ابْنَتِهِ أُمِّ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، فَعَطَسْتُ فَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَأَخْبَرْتُ أُمِّي، فَلَمَّا أَتَاهَا وَقَعَتْ بِهِ وَقَالَتْ: عَطَسَ ابْنِي فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا، فَقَالَ لَهَا: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتُوهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلاَ تُشَمِّتُوهُ“، وَإِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ فَلَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ، فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَحَمِدَتِ اللَّهَ فَشَمَّتُّهَا، فَقَالَتْ: أَحْسَنْتَ.
حضرت ابوبردہ بن ابوموسیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جبکہ وہ (اپنی بیوی) فضل بن عباس کی بیٹی (ام کلثوم) کے ہاں تھے۔ مجھے چھینک آئی تو انہوں نے مجھے جواب نہ دیا اور اسے (ام کلثوم کو) چھینک آئی تو اسے انہوں نے جواب دیا۔ میں نے اپنی والدہ (ام عبداللہ) کو بتایا۔ جب والد محترم ان کے پاس آئے تو وہ خوب بولیں، اور کہا: میرے بیٹے کو چھینک آئی تو اس کو آپ نے جواب نہیں دیا، اور اسے (اپنی بیوی ام کلثوم کو) جواب دیا۔ انہوں نے میری والدہ سے کہا: بلاشبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اسے جواب دو، اور اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو اسے جواب مت دو۔“ اور میرے بیٹے کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا تو میں نے جواب نہیں دیا، اور اسے (ام كلثوم) کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا تو میں نے اسے جواب دیا۔ اس نے کہا: آپ نے بہت اچھا کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الزهد و الرقائق، ح: 2992 و الحاكم فى المستدرك: 265/4»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 941
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد عورت کو چھینک کا جواب دے سکتا ہے، البتہ غیر محرم کو، جسے جواب دینے میں کسی فتنے کا اندیشہ ہو، جواب دینے سے گریز کیا جائے۔ (۲) موجودہ نسخے اور صحیح الادب المفرد والے نسخے میں ام الفصل سے پہلے ابنتہ کا اضافہ ہے اور ام الفصل کو اس سے بدل بنایا گیا ہے۔ فضل اللہ الصمد والے نسخے کے حاشیہ میں شیخ البانی کے حوالے سے ہے کہ یہ اصل سے لفظ رہ گیا ہے میں نے اسے صحیح مسلم اور طبرانی وغیرہ سے درست کیا ہے۔ لیکن شاید یہ کاتب کی غلطی ہے کہ اس نے ابنۃ کو ابنتہٖ بنا دیا ہے یا شیخ رحمہ اللہ کو سہو ہوا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ابنۃ الفصل بن عباس ہے، یعنی فضل بن عباس کی بیٹی جو ابو موسیٰ اشعری کی بیوی تھی جس سے حسن بن علی سے علیحدگی کے بعد ابو موسیٰ نے نکاح کیا تھا۔ موجودہ صورت میں عبارت کا مفہوم بالکل غلط ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ ابو موسیٰ اپنی بیٹی ام فضل کے پاس تھے حالانکہ ایسے نہیں ہے۔ اس لیے یا تو ام الفصل ہی رہنے دیا جائے جو ام کلثوم کی کنیت ہوسکتی ہے یا پھر ابنۃ الفضل بن عباس کیا جائے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے اور یہی آخری زیادہ قرین صواب ہے اور میں نے متن بھی صحیح مسلم کے مطابق کر دیا ہے۔ (۳) فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بیٹی کا نام ام کلثوم تھا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 941