حدثنا ابو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت قال: سمعت البراء يقول: رايت النبي صلى الله عليه وسلم والحسن صلوات الله عليه على عاتقه، وهو يقول: ”اللهم، إني احبه فاحبه.“حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ عَلَى عَاتِقِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: ”اللَّهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ.“
سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا، اور فرما رہے تھے: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم: 3749 و مسلم: 2422 و الترمذي: 3783 - الصحيحة: 2789»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 86
فوائد ومسائل: (۱)بچوں کے کپڑوں پر اگر ظاہری نجاست نہ ہو تو ان کا حکم پاک کپڑوں کا ہوگا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات معلوم نہیں کیں جبکہ بچوں کے کپڑوں کے ناپاک ہونے کا اکثر و بیشتر گمان ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی امامہ رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز بھی پڑھی۔ (۲) سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے حصول کا ذریعہ ہے، جیسا کہ بعض روایات میں ہے:”اے اللہ! جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت فرما۔“ تاہم محبت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے، یہ محبت نہیں بلکہ ان کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ کسی کی تعلیمات سے رو گردانی اس سے محبت نہیں بلکہ بغض کی علامت ہے۔ ان بزرگوں کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں تھیں بلکہ وہ ساری زندگی توحید کا درس دیتے رہے اور محرمات سے بچتے رہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 86