حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن فضالة، قال: حدثنا بكر بن عبد الله المزني، عن انس بن مالك: جاءت امراة إلى عائشة رضي الله عنها، فاعطتها عائشة ثلاث تمرات، فاعطت كل صبي لها تمرة، وامسكت لنفسها تمرة، فاكل الصبيان التمرتين ونظرا إلى امهما، فعمدت إلى التمرة فشقتها، فاعطت كل صبي نصف تمرة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرته عائشة فقال: ”وما يعجبك من ذلك؟ لقد رحمها الله برحمتها صبييها.“حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَعْطَتْهَا عَائِشَةُ ثَلاَثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ صَبِيٍّ لَهَا تَمْرَةً، وَأَمْسَكَتْ لِنَفْسِهَا تَمْرَةً، فَأَكَلَ الصِّبْيَانُ التَّمْرَتَيْنِ وَنَظَرَا إِلَى أُمِّهِمَا، فَعَمَدَتْ إِلَى التَّمْرَةِ فَشَقَّتْهَا، فَأَعْطَتْ كُلَّ صَبِيٍّ نِصْفَ تَمْرَةٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ فَقَالَ: ”وَمَا يُعْجِبُكِ مِنْ ذَلِكَ؟ لَقَدْ رَحِمَهَا اللَّهُ بِرَحْمَتِهَا صَبِيَّيْهَا.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس (سوال کرنے کے لیے) آئی تو انہوں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے ایک ایک کھجور ہر بچے کو دے دی اور ایک اپنے لیے رکھ لی۔ بچے اپنی اپنی کھجور کھا کر پھر ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس عورت نے اپنی کھجور نکالی اور اس کے دوٹکڑے کیے اور ہر ایک بچے کو آدھی دے دی (اور خود کچھ نہ کھایا)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا تعجب ہے؟ یقیناً اللہ نے اس پر رحم فرما دیا، کیونکہ اس نے اپنے بچوں پر رحم کیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الحاكم فى المستدرك: 177/4 و أبونعيم فى الحلية: 230/2 و البزار فى مسنده: 6762 - الصحيحة: 3143»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 89
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔ تاہم سوال سے حتی الوسع بچنا افضل ہے، نیز معمولی چیز کے صدقے کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ (۲) صحیح بخاري (۵۹۹۵)میں صراحت ہے کہ اس عورت کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ اس خاتون نے اپنی ذات پر اپنی بچیوں کو ترجیح دی اور اپنے لیے رکھی ہوئی کھجور بھی ان میں تقسیم کر دی۔ اللہ تعالیٰ کو اس عورت کا اپنی بچیوں پر شفقت کرنا اتنا پسند آیا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے اس پر رحم فرما کر اسے جنت کا مستحق قرار دے دیا اور دوزخ سے آزاد قرار دیا۔ (۳) اللہ کے بندوں بالخصوص اپنے بچوں اور قریبی رشتہ داروں پر رحمت و شفقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے کہ اس عورت نے اپنی بچیوں پر رحم کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرمایا۔ حدیث نبوی ہے: ((الرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمٰنُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی، اِرْحَمُوْا مَنْ فِي الْأرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ))(الصحیحة للألباني، حدیث:۹۲۵) ”(لوگوں پر)رحم کرنے والوں پر رحمن تبارک و تعالیٰ رحم فرماتا ہے۔ تم اہل زمین پر رحم کرو عرش والا تم پر مہربان ہوگا۔“ (۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے صدقے کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جس سے معلوم ہوا کہ اگر مقصود فخر اور احسان جتلانا نہ ہو تو اپنی نیکی اور صدقے کا ذکر کسی سے کیا جاسکتا ہے۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت بھی معلوم ہوئی کہ ان کے پاس صرف تین کھجوریں تھیں لیکن انہوں نے اپنے اوپر سائلہ کو ترجیح دی۔ (۵) والدین بچوں کی کس مشکل سے پرورش کرتے ہیں اس روایت میں اس کی ایک جھلک کا ذکر ہے کہ خود بھوکے رہ کر بھی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اولاد جب جوان ہو جاتی ہے اور والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اولاد اپنی ضروریات کو تو پورا کرتی ہے لیکن والدین کا ذرہ بھر خیال نہیں کرتی۔ ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتی ہے نہ ان کا سہارا بنتی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار حسن سلوک کی جو تاکید ہے وہ والدین کے انہی احسانات کی وجہ سے ہے اور والدہ کے ساتھ خصوصی حسن سلوک کا ذکر اس کی خصوصی رحم دلی اور اولاد کے لیے تکالیف برداشت کرنے کی وجہ سے ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 89