حدثنا معاذ بن فضالة، عن هشام، عن حماد، عن زيد بن وهب، عن ابي ذر قال: فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم نحو البقيع، وانطلقت اتلوه، فالتفت فرآني فقال: ”يا ابا ذر“، فقلت: لبيك يا رسول الله، وسعديك، وانا فداؤك، فقال: ”إن المكثرين هم المقلون يوم القيامة، إلا من قال هكذا وهكذا في حق“، قلت: الله ورسوله اعلم، فقال: ”هكذا“، ثلاثا، ثم عرض لنا احد فقال: ”يا ابا ذر“، فقلت: لبيك رسول الله وسعديك، وانا فداؤك، قال: ”ما يسرني ان احدا لآل محمد ذهبا، فيمسي عندهم دينار، او قال: مثقال“، ثم عرض لنا واد، فاستنتل فظننت ان له حاجة، فجلست على شفير، وابطا علي. قال: فخشيت عليه، ثم سمعته كانه يناجي رجلا، ثم خرج إلي وحده، فقلت: يا رسول الله، من الرجل الذي كنت تناجي؟ فقال: ”او سمعته؟“ قلت: نعم، قال: ”فإنه جبريل اتاني، فبشرني انه من مات من امتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة“، قلت: وإن زنى وإن سرق؟ قال: ”نعم.“حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ الْبَقِيعِ، وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوهُ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي فَقَالَ: ”يَا أَبَا ذَرٍّ“، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، وَأَنَا فِدَاؤُكَ، فَقَالَ: ”إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلاَّ مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا فِي حَقٍّ“، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَقَالَ: ”هَكَذَا“، ثَلاَثًا، ثُمَّ عَرَضَ لَنَا أُحُدٌ فَقَالَ: ”يَا أَبَا ذَرٍّ“، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، وَأَنَا فِدَاؤُكَ، قَالَ: ”مَا يَسُرُّنِي أَنَّ أُحُدًا لِآلِ مُحَمَّدٍ ذَهَبًا، فَيُمْسِي عِنْدَهُمْ دِينَارٌ، أَوْ قَالَ: مِثْقَالٌ“، ثُمَّ عَرَضَ لَنَا وَادٍ، فَاسْتَنْتَلَ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ حَاجَةً، فَجَلَسْتُ عَلَى شَفِيرٍ، وَأَبْطَأَ عَلَيَّ. قَالَ: فَخَشِيتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ كَأَنَّهُ يُنَاجِي رَجُلاً، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ وَحْدَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي كُنْتَ تُنَاجِي؟ فَقَالَ: ”أَوَ سَمِعْتَهُ؟“ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ”فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَبَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ“، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: ”نَعَمْ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التفات فرمایا تو مجھے دیکھ کر فرمایا: ”اے ابوذر!“ میں نے عرض کیا: میں حاضر ہوں اور تعمیلِ ارشاد کے لیے موجود، نیز آپ پر قربان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیادہ مال والے ہی روزِ قيامت قلت کا شکار ہوں گے، سوائے ان کے جنہوں نے راہِ حق میں اس اس طرح لٹایا۔“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ”اس طرح“ کا لفظ استعال کیا۔ پھر احد پہاڑ ہمارے سامنے ظاہر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوزر؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور تعمیلِ ارشاد کے لیے تیار ہوں، اور آپ پر فدا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ بات خوش نہیں کرتی کہ آلِ محمد کے لیے احد پہاڑ سونے کا بن جائے اور شام تک ان کے پاس ایک درہم یا ایک مثقال بھی باقی ہو۔“ پھر ہمارے سامنے ایک وادی آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حاجت ہوگی، چنانچہ میں وادی کے کنارے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آنے میں کافی دیر کر دی۔ وہ کہتے ہیں: مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا (کہ کہیں دشمن نہ آگیا ہو) پھر میں نے سنا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی آدمی سے سرگوشی کر رہے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی واپس تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کس آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے سن لیا؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرائیل تھے۔ میرے پاس یہ خوشخبری دینے کے لیے آئے تھے کہ میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ میں نے کہا: خواہ وہ زانی اور چور ہو؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الرقاق: 6444 و مسلم: 94 و الترمذي: 2644»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 803
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص سے اس طرح کہنا جائز ہے کہ میں آپ پر ”قربان جاؤں“ یہ اظہار محبت کا ایک انداز ہے۔ (۲) اگر اللہ کا تقوی ہو اور انسان مالی حقوق کا خیال رکھنے والا ہو تو پھر مالداری اچھی چیز ہے۔ بصورت دیگر یہ ہلاکت کا باعث ہے، دیکھیے، حدیث:۳۰۱ کے فوائد۔ نیز معلوم ہوا کہ مال کو مختلف مصارف میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور جلد از جلد مستحق تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) اس سے عقیدہ توحید کی عظمت اور شرک کی قباحت بھی معلوم ہوئی۔ توحید کی موجودگی میں بڑے سے بڑا گناہ بھی اللہ کے فضل سے چھوٹا ہو جاتا ہے اور شرک کی موجودگی میں بڑے سے بڑا نیک عمل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 803