حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا ابو داود، قال: حدثنا شعبة، عن يزيد بن خمير قال: سمعت عبد الله بن ابي موسى قال: قالت عائشة: لا تدع قيام الليل، فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يذره، وكان إذا مرض او كسل صلى قاعدا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: لاَ تَدَعْ قِيَامَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَذَرُهُ، وَكَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ كَسِلَ صَلَّى قَاعِدًا.
حضرت عبداللہ بن ابی موسیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: تم رات کا قیام نہ چھوڑنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں چھوڑتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو جاتے یا طبیعت میں سستی ہوتی تو بیٹھ کر پڑھ لیتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب التطوع، باب قيام الليل: 1307»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 800
فوائد ومسائل: (۱)کسی کام پر قدرت کے باوجود اسے ترک کر دینا سستی کہلاتا ہے اور اگر کرنے کی قدرت نہ ہو تو عجز کہلاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سست ہونے کا لفظ بولا تو خود اپنے لیے بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ (۲) اس سے قیام اللیل کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خوب اہتمام کرتے تھے۔ ایک حدیث میں اسے سابقہ نیک لوگوں کی عادت قرار دیا گیا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 800