حدثنا علي بن الحسن، قال: اخبرنا الحسين، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، عن ابيه: خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد وابو موسى يقرا، فقال: ”من هذا؟“ فقلت: انا بريدة جعلت فداك، قال: ”قد اعطي هذا مزمارا من مزامير آل داود.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَأَبُو مُوسَى يَقْرَأُ، فَقَالَ: ”مَنْ هَذَا؟“ فَقُلْتُ: أَنَا بُرَيْدَةُ جُعِلْتُ فِدَاكَ، قَالَ: ”قَدْ أُعْطِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ.“
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے گئے جبکہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ وہاں تلاوت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہو؟“ میں نے عرض کیا: ”آپ پر قربان جاؤں، میں بریدہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو آل داؤد کی خوش آوازی سے ایک حصہ دیا گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب صلاة المسافرين: 793 - انظر صحيح أبى داؤد: 1341»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 805
فوائد ومسائل: (۱)آل داؤد سے مراد یہاں خود سیدنا داؤد علیہ السلام ہیں جنہیں نہایت خوبصورت اور پر تأثیر آواز دی گئی تھی۔ مزمار اگرچہ غنا اور ترنم کو کہتے ہیں لیکن یہاں خوبصورت آواز مراد ہے۔ (۲) اس روایت میں فداہ أبی و امی نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی فدویت کا ذکر ہے۔ گزشتہ باب سے اس کا تعلق زیادہ مناسب ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 805