حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم قال: حدثني عبد الله بن شداد قال: سمعت عليا رضي الله عنه يقول: ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم يفدي رجلا بعد سعد، سمعته يقول: ”ارم، فداك ابي وامي.“حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفَدِّي رَجُلاً بَعْدَ سَعْدٍ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: ”ارْمِ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي.“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے بعد کسی پر ماں باپ کو فدا کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مارو تیر، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد و السير: 2905 و مسلم: 2411 و أبوداؤد: 2965 و الترمذي: 1719 و النسائي: 4140 و ابن ماجه: 129»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 804
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح یہ کہنا درست ہے کہ میں آپ پر قربان جاؤں اسی طرح یہ کہنا بھی جائز ہے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یہ کسی کے عظیم کارنامے یا اس کی عظمت و محبت کے وقت کہا جاتا ہے۔ (۲) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے علم کے مطابق یہ فرمایا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے دن سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے لیے بھی اپنے ماں باپ کے فدا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح البخاري، حدیث:۳۷۲۰) (۳) اس حدیث سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ آپ نے غزوہ احد کے موقع پر اپنا ترکش حضرت سعد کے سامنے خالی کر دیا اور درج بالا بات ان سے ارشاد فرمائی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 804