حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر، قال: قلت: يا رسول الله، إنك تبعثنا فننزل بقوم فلا يقرونا، فما ترى في ذلك؟ فقال لنا: ”إن نزلتم بقوم فامر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا، فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلا يَقْرُونَا، فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ لَنَا: ”إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ.“
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں کسی قوم کے پاس بھیجتے ہیں اور وہ لوگ ہماری مہمانی نہ کریں تو آپ اس معاملے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ تمہیں کوئی ایسی چیز پیش کریں جو مہمان کے لیے مناسب ہے تو اسے قبول کر لو، اور اگر وہ مہمانی نہ کریں تو ان کے مناسب حال مہمانی کا حق ان سے لے لو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6137 و مسلم: 1727 و أبوداؤد: 3752 و الترمذي: 1589 و ابن ماجه: 3676»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 745
فوائد ومسائل: اگر کسی کو میزبانی کے وسائل مہیا نہ ہوں تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے، البتہ وسائل کے باوجود کوئی مہمان نوازی نہ کرے تو یہ حق زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 745