حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن منصور، عن الشعبي، عن المقدام ابي كريمة الشامي، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”ليلة الضيف حق واجب على كل مسلم، فمن اصبح بفنائه فهو دين عليه إن شاء، فإن شاء اقتضاه، وإن شاء تركه.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ الشَّامِيّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَيْلَةُ الضَّيْفِ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِهِ فَهُوَ دَيْنٌ عَلَيْهِ إِنْ شَاءَ، فَإِنْ شَاءَ اقْتَضَاهُ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ.“
سیدنا ابوکریمہ مقدام شامی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کو مہمان آجائے تو اس کی اس رات کی مہمانی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور جو مہمان صبح ہونے تک ٹھہرا رہے تو اس وقت کی دعوت اس گھر والے پر قرض ہے، اگر وہ مہمان چاہے تو اس کا مطالبہ کرے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأطعمة: 3750 و ابن ماجه: 3677 - انظر الصحيحة: 2204»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 744
فوائد ومسائل: اس سے معلوم ہوا کہ دیگر حقوق کی طرح ایک حق مہمان کا ہے اور وہ میزبان کے نہ چاہتے ہوئے بھی لے سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص لوگوں کا مہمان بننے والا کام شروع کر دے اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 744