حدثنا عبد الله بن صالح قال: حدثني الليث قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني محمد بن جبير بن مطعم، ان جبير بن مطعم اخبره، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يدخل الجنة قاطع رحم.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ.“
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب إثم القاطع: 5984 و مسلم: 2556 و أبوداؤد: 1696 و الترمذي: 1909»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 64
فوائد ومسائل: (۱)جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا اور لوگ ان سے اپنے جھگڑوں کے فیصلے کرواتے تھے، غزوہ بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں مدینہ طیبہ آئے اور سورۂ طور کی تلاوت سنی تو دل میں ایمان کا شوق پیدا ہوا، پھر خیبر کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان کے باپ مطعم بن عدی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:”آج اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان بدبودار قیدیوں کے بارے میں سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا۔“(صحیح البخاري، حدیث:۴۰۲۴) (۲) قطع رحمی کرنے والا اگر قطع رحمی کی حالت میں مر جائے تو جنت میں نہیں جائے گا، البتہ اگر اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے تو پھر اللہ معاف کرنے پر قادر ہے۔ا س سے قطع رحمی کے سنگین جرم ہونے کا علم بھی ہوتا ہے۔ سلف صالحین اور محدثین کا نظریہ یہ ہے کہ شرک و کفر کے علاوہ کوئی بھی گناہ ہو، وہ توبہ سے معاف ہو جائے گا۔ بشرطیکہ توبہ کی شروط پوری ہوں ورنہ اللہ چاہے گا تو سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے معاف کر دے گا لیکن آخر کار وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾(النسآء:۱۱۶) ”اللہ تعالیٰ یہ معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہے گا معاف کر دے گا۔“ حدیث شفاعۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرہ برابر ایمان والا آدمی بھی آخر کار جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس لیے زیر مطالعہ حدیث کے حوالہ سے یہ کہنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے معاف نہ کیا تو وہ اوّل مرحلہ میں جنت میں نہیں جائے گا۔ لیکن ایمان کی وجہ سے وہاں سے نکال لیا جائے گا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 64