حدثنا محمد بن عمران بن ابي ليلى، قال: حدثنا ايوب بن جابر الحنفي، عن آدم بن علي، عن ابن عمر: ما انفق الرجل على نفسه واهله يحتسبها إلا آجره الله تعالى فيها، وابدا بمن تعول، فإن كان فضلا فالاقرب الاقرب، وإن كان فضلا فناول.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: مَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا إِلاَّ آجَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، فَإِنْ كَانَ فَضْلاً فَالأَقْرَبَ الأَقْرَبَ، وَإِنْ كَانَ فَضْلاً فَنَاوِلْ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آدمی اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر جو بھی خرچ کرے اور ثواب کی امید رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کو اس میں ثواب عطا فرماتا ہے، اور خرچ کی ابتداء ان سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمے ہے، پھر اگر اس سے بچ رہے تو عزیز و اقارب پر ان سے رشتوں کے مراتب کے اعتبار سے خرچ کرو اور اگر اس سے بھی زائد ہو تو دوسروں کو دے دو۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 62
فوائد ومسائل: (۱)یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس میں وارد مفہوم کی تائید صحیح حدیث سے ہوتی ہے۔ (الارواء حدیث:۸۳۳) (۲) اپنی ذات پر انسان اگر اس نیت سے خرچ کرے کہ زندہ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں گا تو بھی انسان کی نیکی شمار ہوگی، اسی طرح اپنے اہل و عیال پر اگر اس نیت سے خرچ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان کا کفیل بنایا ہے تو یہ بھی صدقے کے قائم مقام ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنے زیر کفالت کا خیال نہ رکھے اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں تو اس کو گناہ قرار دیا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا:”کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافي ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت کو ضائع کر دے۔“(سنن أبي داود، حدیث:۱۶۹۲) (۳) زیر کفالت اور عزیز و اقارب پر خرچ کرنا بلاشبہ دوہرے اجر کا باعث ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان صرف گھر والوں کے تعیشات کا بندوبست کرتا رہے اور دوسرے مستحقین کو بالکل نظر انداز کر دے۔ اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرنے کے علاوہ دیگر مستحقین کا بھی ضرور خیال کرنا چاہیے۔ (۴) بعض لوگ دوست و احباب کو دیتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بخل والا معاملہ کرتے ہیں اور ان کی جائز ضروریات بھی پوری نہیں کرتے۔ ایسا کرنا بھی ناجائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 62