حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا يحيى بن ابي غنية، قال: اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، عن ابي الزبير، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان، وكانت تحته الدرداء بنت ابي الدرداء، قال: قدمت عليهم الشام، فوجدت ام الدرداء في البيت، ولم اجد ابا الدرداء، قالت: اتريد الحج العام؟ قلت: نعم، قالت: فادع الله لنا بخير، فإن النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقول: ”إن دعوة المرء المسلم مستجابة لاخيه بظهر الغيب، عند راسه ملك موكل، كلما دعا لاخيه بخير قال: آمين، ولك بمثل“، قال: فلقيت ابا الدرداء في السوق، فقال مثل ذلك، ياثر عن النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ بِنْتُ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَيْهِمُ الشَّامَ، فَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ فِي الْبَيْتِ، وَلَمْ أَجِدْ أَبَا الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: ”إِنَّ دَعْوَةَ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ“، قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي السُّوقِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، يَأْثُرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا صفوان بن عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اور ان کے نکاح میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی درداء تھی، وہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس شام آیا تو گھر میں سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا تھیں جبکہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہیں تھے۔ سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم اس سال حج پر جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: پھر ہمارے لیے بھی خیر کی دعا کرنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بلاشبہ مسلمان آدمی کی دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کرتا ہے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ جب وہ دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے سر کے پاس مقرر کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: آمین اور تجھے بھی ایسا ہی ملے۔“ وہ کہتے ہیں کہ پھر بازار میں مجھے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ ملے تو انہوں نے اسی طرح کی بات کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 88، 2733 و ابن ماجه: 2895 - انظر الصحيحة: 1399»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 625
فوائد ومسائل: (۱)کسی کی عدم موجودگی میں کی گئی دعا میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے۔ ریاکاری اور دیگر مقاصد نہیں ہوتے اس سے لیے وہ دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ نیز فرشتے کے آمین کہنے سے بھی قبولیت کے اسباب بڑھ جاتے ہیں۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ کسی سے دعا کروانا جائز ہے، خصوصاً جب کوئی نیکی کی راہ میں جا رہا ہو تو اس سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ (۳) فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ ہیں جو کبھی اللہ تعالیٰ کی معصیت نہیں کرتے۔ ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اس لیے دوسروں کے لیے دعا کثرت سے کرنی چاہیے تاکہ فرشتے انسان کے لیے دعا کریں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 625