حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا حنش بن الحارث، عن ابيه قال: كان الرجل منا تنتج فرسه فينحرها فيقول: انا اعيش حتى اركب هذا؟ فجاءنا كتاب عمر: ان اصلحوا ما رزقكم الله، فإن في الامر تنفسا.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا تُنْتَجُ فَرَسُهُ فَيَنْحَرُهَا فَيَقُولُ: أَنَا أَعِيشُ حَتَّى أَرْكَبَ هَذَا؟ فَجَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ: أَنْ أَصْلِحُوا مَا رَزَقَكُمُ اللَّهُ، فَإِنَّ فِي الامْرِ تَنَفُّسًا.
حارث بن لقيط رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ جب اس کی گھوڑی بچہ جنتی تو وہ اس کو ذبح کر لیتا اور کہتا کہ میری زندگی کا کیا اعتبار کہ میں اس پر سواری کروں گا، پھر ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم نامہ آیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جو رزق دے اسے سنبھال کر رکھو، بلاشبہ قیامت میں ابھی دیر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه وكيع فى الزهد: 470 و هناد فى الزهد: 655/2 و ابن أبى الدنيا فيقصر الأمل: 91 و نعيم بن حماد فى الفتن: 1815 - انظر الصحيحة: 9»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 478
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قیامت قریب ہے اور نہ جانے کس وقت آجائے اس لیے مال کی حفاظت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس لیے اس کو ذبح کرو، کھاؤ اور ٹھکانے لگاؤ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھائی کہ قیامت قریب ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان سارا مال ختم کر دے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ قیامت آرہی ہے بلکہ زندگی کے آخری لمحے تک کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ پھر قیامت کی بہت سی علامات ہیں جو اس سے پہلے رونما ہوں گی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 478