حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى، عن ابي جعفر، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”ثلاث دعوات مستجابات: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٍ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دعائیں (ضرور) قبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والد کی دعا اولاد کے خلاف۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الوتر: 1536 و الترمذي: 1905 و ابن ماجه: 3862»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 481
فوائد ومسائل: یہ حدیث گزشتہ اوراق میں نمبر ۳۲ پر گزر چکی ہے۔ اس کے فوائد وہاں دیکھے جاسکتے ہیں یاد رہے کہ مظلوم اگر کافر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی بد دعا ضرور قبول فرماتا ہے اس لیے آپ نے مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ والد کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا۔ اس کا مقصد ایک تو یہ ہو سکتا ہے کہ والد کو بد دعا کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ وہ قبول ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں والد کو پشیمانی ہو۔ دوسرا یہ کہ اولاد کو والد کے حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ وہ بد دعا کر دے اور اولاد کسی امتحان میں پڑ جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 481