حدثنا ابو عاصم، عن ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”شعبتان لا تتركهما امتي: النياحة والطعن في الانساب.“حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”شُعْبَتَانِ لاَ تَتْرُكُهُمَا أُمَّتِي: النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو باتیں ایسی ہیں جن کو میری امت نہیں چھوڑے گی: نوحہ کرنا اور نسب میں طعن کرنا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 9574 و رواه مسلم، كتاب الإيمان: 67، 121 - نحوه انظر الصحيحة: 1896»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 395
فوائد ومسائل: (۱)ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ چار چیزیں جاہلیت کا کام ہے:نوحہ کرنا حسب و نسب میں طعن کرنا، بیماری کو متعدی سمجھنا اور ستاروں کو موثر سمجھنا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث:۱۰۰۱) یعنی یہ اسلام سے پہلے کا جاہلانہ عقیدہ اور عادات ہیں جن سے ہر ممکن اجتناب ضروری ہے اور ان کا ارتکاب کبیرہ گناہ ہے۔ (۲) کسی کے مرنے پر بآواز بلند اس کے محاسن اور خوبیاں بیان کرنا کہ تو ایسا تھا، تو یہ تھا، وہ تھا وغیرہ یا اس طرح جزع وفزع کرنا کہ تو نہ مرتا، میں مرجاتا یا چیخ و پکار کرنا نوحہ کہلاتا ہے۔ بغیر آواز کے رونا آجانا اس زمرے میں نہیں آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”نوحہ کرنے والی اگر توبہ کے بغیر مرجائے تو قیامت کے روز اسے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس پر گندھک کا کرتا اور خارش کی چادر ہوگی۔“(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:۹۳۴) (۳) حسب ونسب جب اکٹھے استعمال ہوں تو ان کے معانی جدا جدا ہوتے ہیں۔ حسب سے مراد انسان کے اپنے کارنامے، مثلاً:شجاعت و بہادری وغیرہ ہے اور نسب سے مراد آباؤ اجداد اور ماؤں کا ذکر ہے۔ کسی کو اس کے خاندان کی وجہ سے عار دلانا جاہلیت کا کام ہے کیونکہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور کسی کی غلطی اور کمزوری دوسرے کے سر تھوپنا ہرگز جائز نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 395