حدثنا ابو الربيع، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال: اخبرنا العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا مات العبد انقطع عنه عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له.“حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَلاَءُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِذَا مَاتَ الْعَبْدُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے، (ان کا نفع پہنچتا رہتا ہے) صدقہ جاریہ، علم جس سے استفادہ کیا جاتا ہو، یا نیک (مومن) اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته: 1631 و أبوداؤد: 2880 و النسائي: 3651 و الترمذي: 1376 و مسند أحمد: 372/2»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 38
فوائد ومسائل: (۱)جب تک انسان زندہ ہوتا ہے خود نیک اعمال کرتا ہے اور جب آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور روح پرواز کر جاتی ہے تو اعمال کا یہ سلسلہ رک جاتا ہے اور انسان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہونا بند ہو جاتا ہے۔ موت بھی ناقابل تردید حقیقت ہے اور اعمال کا ختم ہونا بھی! انسان کے سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں، ساری تمنائیں دل میں رہتی ہیں کہ وہ دار آخرت کو سدھار جاتا ہے۔ مسلمان ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، امیر ہو یا غریب منزل سب کی قبر ہے اور اس کے بعد راستے جدا جدا ہیں إمّا فِی النَّارِ وَاِمّا فِی الْجَنَّة۔ جنت یا جہنم میں سے کس راستے پر ہم نے جانا ہے اس کا فیصلہ ابھی اسی زندگی میں کرنا ہوگا۔ زندگی مختصر ہے لیکن آخرت کا سفر نہایت طویل اور گھاٹیاں بہت دشواری گزار ہیں۔ راہی اور منزل کے درمیان ظلمتیں اور تاریکیاں حائل ہیں۔ اسی زندگی میں اعمال صالح کی شمع جلائیں گے تو یہ نور روز قیامت کام آئے گا۔ زندگی میں کیے ہوئے کسی نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا لیکن کچھ اعمال اتنے عظیم ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کا ثواب انسان کو ملتا رہتا ہے۔ دانا لوگ ایسا کاروبار کرتے ہیں کہ رأس المال بھی محفوظ رہے اور دیر تک نفع بھی حاصل ہوتا رہے۔ اس لیے ہمیں ایسے اعمال کا انتخاب کرنا چاہیے جو زندگی اور موت کے بعد بھی ہمارے لیے سود مند ہوں۔ مذکورہ حدیث میں انہی اعمال کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۲) حدیث میں مذکور سب سے پہلا عمل صدقہ جاریہ ہے۔ اس سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے اللہ کی مخلوق کو مسلسل فائدہ ہو رہا ہو، مثلاً: مسجد، مدرسہ، مسافر خانہ اور شفاخانہ کی تعمیر، پانی پلانے کا انتظام، کنواں کھدوانا، ٹیوب ویل لگانا، راستے میں سایہ دار درخت لگانا تاکہ مسافر آرام کرسکیں، کوئی زمین یا جائیداد وقف کرنا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ یہ سب صدقہ جاریہ ہیں جن کا اجر و ثواب مرنے کے بعد اس وقت تک ملتا رہتا ہے جب تک لوگ مذکورہ فلاحی کاموں سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ کی ایک اور شکل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے امام سبکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ تصنیف و تالیف صدقہ جاریہ کی سب سے احسن اور دیر پا صورت ہے۔ (شرح الادب المفرد) (۳) دوسری چیز جو انسان کے لیے صدقہ جاریہ بنتی ہے اور اس کا ثواب انسان کو ملتا رہتا ہے، وہ نفع بخش علم ہے۔ علم کی فضیلت مسلم ہے۔ اللہ رب العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِِلٰهَ اِِلَّا اللّٰهُ﴾(محمد: ۱۹) ”جان لیجیے! اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔“ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾(المجادلة: ۱۱) ”تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے گا۔“ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِيْ عَلٰی أَدْنَاکُمْ))(جامع الترمذي، العلم، حدیث: ۲۶۸۵) ”عالم کی فضیلت ایک عبادت گزار پر ایسے ہے جیسے میری فضیلت تم سے ادنیٰ شخص پر ہے۔“ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنَّ عَلَّمَ عِلْمًا فَلَهٗ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهٖ لَایُنْقَصُ مِنْ أَجْرِ الْعَامِلِ شَیْئٌ))(سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث: ۲۴۰) ”جس نے کسی کو علم سکھایا (اور سیکھنے والے نے اس پر عمل کیا)تو اس عمل کرنے والے کے برابر سکھانے والے کے لیے بھی اجر ہے اور (اس سے)عامل کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“ علم اور اہل علم کی فضیلت میں بے شمار احادیث وارد ہیں جن کا بیان باعث طوالت ہے۔ علم نافع سے مراد ایسا علم ہے جس پر انسان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی فوز و فلاح کا دارومدار ہے۔ ہر مسلمان کے لیے حلال وحرام اور اسلام کی اساسیات کا علم ضروری ہے، تاہم اہل علم کا ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو دینی علوم میں رسوخ اور مہارت رکھتا ہو۔ لوگوں کی اخروی فلاح کے لیے کوئی بھی دینی راہنمائی جس سے لوگ بعد میں بھی مستفید ہوتے رہیں انسان کے لیے سب سے بڑا صدقہ ہے جو انسان کے نامہ اعمال میں اضافے کا باعث بنے گا۔ دور حاضر میں دینی علوم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ لوگ دیگر علوم و فنون کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جس کی وجہ شاید معاشی مستقبل ہے۔ اہل علم اکثر و بیشتر معاشی محذوشات کا شکار رہتے ہیں اس لیے لوگ اس میدان میں قدم رکھنا مشکل سمجھتے ہیں۔ مغربی تقلید نے اس بحران کو اور زیادہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف معیار زندگی بلند کرنے کی دوڑ نے ہر فرد کو معاشی میدان میں آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ علماء بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ بجا لیکن علم کی جو فضیلت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے اگر صرف اسی کو پیش نظر رکھا جائے تو دنیا کی اس جاہ و حشمت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ انسان معاشی طور پر کتنا ہی مستحکم ہو بالآخر سب کچھ یہیں دھرا رہ جائے گا۔ اگر تعلیم و تعلم کا سلسلہ اپنایا ہوگا تو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور آخرت کے اجر کا اندازہ تو اسی روز ہوگا جس دن اعمال تولے جائیں گے۔ اس لیے جسے اللہ توفیق دے اسے ضرور تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ پھر ضروری نہیں کہ انسان یہ فضیلت اسی راستے سے حاصل کرسکتا ہے بلکہ اہل علم سے تعاون اور مساجد و مدارس کے اخراجات خلوص دل سے پورے کرکے اس اجر میں علماء کا شریک بن سکتا ہے۔ (۴) بسا اوقات انسان کے پاس علم تو ہوتا ہے لیکن نفع بخش نہیں ہوتا اس لیے ایسے علم سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔ اَوْعِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہِ میں دینی مدارس کے ان طلباء کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو سالہا سال تک علم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیوں کو برباد کر دیتے ہیں اور اپنے اس علم سے نہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اپنی عملی زندگی کو صحیح کرسکیں اور نہ دوسروں ہی کو اس سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ایسا علم انسان کی بلندی درجات کے بجائے ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔ حصول علم کے بعد اسے آگے منتقل کرنا ہی انسان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے تاکہ شاگردوں کا سلسلہ چلتا رہے اور انسان کے اعمال صالحہ میں اضافہ ہو۔ (۵) علم تبھی سود مند ہوسکتا ہے جب انسان کو اچھے شاگرد میسر آئیں اس کے لیے دور حاضر میں کسی اچھے ادارے کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں ذہین اور محنتی طلبا ہوں۔ (۶) نفع بخش علم کا انحصار صرف کسب و محنت پر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہو تو تبھی علم نفع بخش ہوسکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے علم سے پناہ مانگتے تھے جو نفع بخش نہ ہو۔ آپ دعا فرماتے: ((اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یُسْمَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ))(سنن ابن ماجة، المقدمة، باب الانتقاع بالعلم....، حدیث: ۲۵۰) ”اے اللہ! میں تیرے ذریعہ سے اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو اور ایسی دعا سے جو سنی نہ جائے، ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو۔“ (۷) اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علوم غیر نافع بلکہ نقصان دہ ہوتے ہیں، جیسے جادو وغیرہ کا علم، اس کے ذریعے سے لوگوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اس سے ممکن ہے جادو سیکھنے والے کو دنیاوی طور پر کچھ فائدہ ہو لیکن انجام کار کے لحاظ سے وہ بھی نقصان ہی میں ہے۔ اسی طرح بعض اوقات جادوگر کسی جادو زدہ کا علاج بھی کرتا ہے جس میں یقیناً مسلمان کا فائدہ ہے اور مسلمان کو نفع پہنچانا نیکی ہے۔ لیکن جو چیز بذات خود حلال نہ ہو اس کا نفع بھی درست نہیں ہے، لہٰذا جادو کا عمل ہی جب سرے سے حرام ہے تو اس کے ذریعے سے نفع پہنچانا جادوگر کے حق میں سود مند نہیں ہوسکتا۔ (۸) نفع بخش علم صرف مسلمان کے حق میں فائدہ مند ہوگا، کافر اس سے محروم رہے گا کیونکہ (لا اِله إلاَّ اللّٰه محمد رسول اللّٰه)نہ پڑھنے والے کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ (۹) تیسری جس چیز کا فائدہ انسان کو فوت ہونے کے بعد بھی ہوتا رہتا ہے اور انسان کے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کا باعث بنتی ہے، وہ نیک اولاد کی دعائیں ہیں۔ اولاد انسان کی کمائی ہے۔ اگر اس کی صحیح تربیت کی جائے اور حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے تو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کا باعث بنتی ہے۔ دنیا میں بوڑھا ہونے پر انسان کا سہارا بنتی ہے اور آخرت میں انسان کے بلندیٔ درجات کا ذریعہ۔ اولاد کا ہر اچھا عمل والدین کے لیے نفع بخش ہے، تاہم اس میں ترغیب دی گئی ہے کہ والدین کے لیے دعا و استغفار ضرور کرنا چاہیے۔ ولد صالح میں صالح کی قید سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد اگر نیک ہوگی تو تبھی دعا کرے گی۔ اور نیک تب ہی ہوگی جب والدین نے اس کے لیے کوشش کی ہوگی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز اد اکرنے کی عادت ڈالنے کا حکم دیا ہے اور دس سال کی عمر میں سختی کرنے کا حکم دیا ہے، اگر وہ نماز نہ پڑھیں۔ اسی طرح دینی اقدار سے اولاد کو آگاہ کرنا اور شرعی آداب سکھانا بھی والدین کا دینی فرض ہے۔ والدین کی کوشش کے بعد اگر اولاد دین کی طرف راغب نہیں ہوتی تو والدین بریٔ الذمہ ہیں، لیکن انہیں ہر ممکن کوشش اور دعا کرنی چاہیے۔ (۱۰) فوت ہونے کے بعد حصول ثواب اور بلندیٔ درجات کے یہی مذکورہ ذرائع ہیں۔ ان کے علاوہ میت کے نفع کے لیے خود ساختہ چالیسواں، قرآن خوانی اور دیگر بدعات کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ان سے میت کو کوئی فائدہ ہی ہوتا ہے بلکہ اگر وہ ان بدعات کا خود بھی مرتکب ہوتا تھا اور اس کی خواہش بھی تھی کہ اس کے مرنے پر بھی ایسے ہی کیا جائے، تو بعید نہیں کہ وہ سزا اور وعید کا مستحق ٹھہرے۔ (۱۱) اس سے نیک اولاد کے حصول کی نیت سے شادی کرنے کی بھی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور کثرت اولاد کی ترغیب بھی ہے کیونکہ اولاد صالح جس قدر زیادہ ہوگی، انسان کے درجات میں بلندی کا باعث ہوگی۔ اس لیے بچے دو ہی اچھے کا فارمولا کافرانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے جن کی زندگی کا مقصد یہی عارضی دنیا ہے۔ مسلمان ذہین و فطین ہوتا ہے، اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ اور کثرت اولاد کی وجہ سے وہ زیادہ محنت کرتا ہے تو اس کا اولاد کو کھلایا ہوا ایک لقمہ بھی ضائع نہیں جاتا بلکہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔ (۱۲) ہمارے پاس وقت محدود اور کاموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ زندگی محدود ہے اور تمنائیں لامحدود، اس لیے انفع سے انفع علم سے ابتد اکرنی چاہیے، یعنی پہلی فرصت میں ان علوم کو حاصل کرنا چاہیے جو آخرت میں بھی فائدہ دیں۔ (۱۳)اس حدیث میں اس بات کی ترغیب بھی ہے کہ نیک سیرت بیوی کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ اولاد کی اچھی تربیت کرکے انہیں نیک سیرت بنائے اور وہ انسان کے لیے نفع بخش ثابت ہوں۔ (۱۴)ہر مسلمان کو چاہیے کہ حدیث میں مذکور تینوں طرح کے اعمال کا انتظام کرکے اس دنیا سے جائے ورنہ کم از کم ان تینوں میں سے ایک کام تو ضرور کرے کہ فوت ہونے کے بعد بھی اعمال کا یہ سلسلہ منقطع نہ ہو جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 38