حدثنا عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا حيوة قال: حدثني ابو عثمان الوليد بن ابي الوليد، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن ابر البر ان يصل الرجل اهل ود ابيه.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا حسن سلوک یہ ہے کہ باپ کے دوستوں سے حسن سلوک کیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، البر والصلة والأدب: 2552 و أبوداؤد: 5143 و الترمذي: 1903، الصحيحة: 1432، 3063»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 41
فوائد ومسائل: (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن سلوک کے کئی مراتب ہیں اور ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ والدین کی وفات کے بعد یا ان کی عدم موجودگی میں ان کے دوستوں اور ملنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اسے افضل حسن سلوک اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ زندہ آدمی کے شرم و حیا کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر فوت شدہ کے ساتھ اس طرح کا حیا نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی شخص کسی کے فوت ہونے کے بعد بھی اس کے تعلق داروں کا خیال رکھتا ہے تو یہ واقعی سب سے بڑا حسن سلوک ہے۔ (۲) والدین کے ساتھ ان کے فوت ہونے کے بعد حسن سلوک کی صورت یہ ہے کہ جن امور خیر کو وہ بجا لاتے تھے انہیں جاری رکھا جائے اور جن لوگوں سے وہ تعاون کرتے رہے ہوں ان سے تعاون کیا جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 41