الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر

الادب المفرد
كتاب الوالدين
19. بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا
19. والدین کے ساتھ ان کی موت کے بعد حسن سلوک کرنا
حدیث نمبر: 36
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن يونس، قال‏:‏ حدثنا ابو بكر، عن عاصم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة قال‏:‏ ترفع للميت بعد موته درجته‏.‏ فيقول‏:‏ اي رب، اي شيء هذه‏؟‏ فيقال‏:‏”ولدك استغفر لك‏.“‏حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ تُرْفَعُ لِلْمَيِّتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ‏.‏ فَيَقُولُ‏:‏ أَيْ رَبِّ، أَيُّ شَيْءٍ هَذِهِ‏؟‏ فَيُقَالُ‏:‏”وَلَدُكَ اسْتَغْفَرَ لَكَ‏.“‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میت کے درجات اس کے مرنے کے بعد بلند کیے جاتے ہیں تو وہ عرض کرتا ہے: اے میرے رب! میرا درجہ کس بنا پر بلند ہوا؟ اسے کہا جاتا ہے: تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن ماجه، أبواب الأدب: 3660 و أحمد: 363/2، عن عبد الوارث به و ابن حبان، ح: 66 و البوصيري وله شاهد عند الحاكم: 178/2»

قال الشيخ الألباني: حسن

الادب المفرد کی حدیث نمبر 36 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 36  
فوائد ومسائل:
(۱)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ موقوف اثر مرفوعاً بھی ثابت ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: السلسلة الصحیحة للالبانی، حدیث: ۱۵۹۸)
(۲) اس حدیث میں اولاد کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیں۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾ (الاسراء)
اور کہیے: اے میرے رب! ان دونوں پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔
(۳) جنت میں مختلف درجات ہوں گے مومن کو بلند درجات کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے۔ اولاد انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہے جس کے اچھے اعمال اور استغفار کا انسان کو مرنے کے بعد بھی فائدہ ہوتا ہے۔
(۴) اس میں والدین کے لیے بھی یہ سبق ہے کہ وہ اولاد کی اچھی تربیت کریں تاکہ وہ ان کے لیے استغفار کریں اور ان کی بلندیٔ درجات کا باعث بن سکے۔ ان والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اولاد کی دنیا سنوارنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ انہیں دنیاوی تعلیم دلوا کر اعلیٰ عہدوں پر فائز کرواتے ہیں یا ان کے لیے کاروبار کی راہیں ہموار کرتے ہیں لیکن انہیں دین کی تعلیم سے نا آشنا رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ وہ خود اچھے عمل کرتے ہیں کہ ان کی عاقبت سنور جائے اور نہ والدین کے لیے دعا کرنے ہی کی انہیں توفیق ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اولاد کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مسلمان بھی بنیں۔
(۵) دعا کے ذریعے اگر انسان کے درجات بلند ہوسکتے ہیں تو یقیناً اس کے گناہ بھی اللہ تعالیٰ اولاد کی دعا سے معاف کرنے پر قادر ہے لیکن یاد رہے کہ شرک اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک انسان خود زندگی میں اس کی معافی طلب نہ کرے۔ اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ بھی نہایت سنگین ہے۔ اگر والدین نے کسی کا کچھ دینا ہے یا کسی پر کوئی زیادتی ہو تو اولاد کو چاہیے کہ وہ ادا کرے اور متعلقہ افراد جن پر زیادتی ہوئی ہے ان سے معافی طلب کرے۔
(۶) اس میں اولاد کی دعا کا ذکر ہے، البتہ دیگر دلائل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی آدمی کی دعا انسان کو فائدہ دے سکتی ہے۔
(۷) ہمارے معاشرے میں مرنے والے کے لیے استغفار کا مروجہ طریقہ اور فاتحہ خوانی کا رواج بدعت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حفاظ اورقراء کو گھر بلا کر قرآن خوانی کروانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ مرنے والا ساری زندگی اللہ کی نافرمانی کرتا رہتا ہے اور قرآن کو ہاتھ تک نہیں لگاتا اور اس کے مرتے ہی اسے قرآن خوانی کراکر ایصال ثواب شروع کر دیا جاتا ہے۔ یاد رکھیے! اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔
(۸) میت کے لیے صرف دعا کا حکم ہے؟ قرآن پڑھ کر یا اذکار کرکے اس کا ثواب آگے منتقل کرنا سراسر خلاف سنت ہے کیونکہ پڑھنے والے کو تو خود معلوم نہیں کہ اسے ثواب ملا ہے کہ نہیں اور اگر بفرض محال ملا ہی ہو تو کیا اسے یہ حق ہے کہ اپنا ثواب کسی کو دے سکے؟ ہرگز نہیں! اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہر شخص جس کے پاس مال و دولت ہے وہ نیکیاں خرید لیتا۔ قرآن مجید اس کی تردید کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ﴾ (المدثر: ۳۸)
ہر نفس نے جو کیا اس کے بدلے وہ گروی ہے۔
(۹) عقلی لحاظ سے بھی یہ سلسلہ غیر شرعی معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دینِ اسلام تو امراء وغرباء سب کے لیے ہے۔ اب ایک آدمی قرآن خوانی کروانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو کیا نعوذ باللہ وہ گناہ گار ٹھہرے گا جبکہ اس کی استطاعت ہی نہیں ہے جبکہ دوسرا ایک بدکار ہے لیکن ہے مالدار تو وہ قرآن خوانی کروا کر اپنی بخشش کروا لے گا؟ اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ یہ دین بھی سرمایہ داروں کو نوازتا ہے (نعوذ باللہ)
دور حاضر کے پیر بھی اسی مرید کو قربت کا شرف بخشتے ہیں جس کی جیب بھاری ہو۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 36   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.